خبریں

معاشرتی مسائل

Threads
0
Messages
0
Threads
0
Messages
0
None

طنز و مزاح

Threads
0
Messages
0
Threads
0
Messages
0
None
حکومت پاکستان نے سعودی عرب میں مختلف الزامات میں قید 4 ہزار پاکستانیوں کے پاسپورٹ بلاک کرنے کا اعلان کیا ہے۔ یہ اقدام ان پاکستانی قیدیوں کو وطن واپس آنے سے روکنے کے لیے اٹھایا گیا ہے جن پر سعودی قوانین کی خلاف ورزی کے الزامات عائد ہیں، اور وہ اس وقت سعودی عرب کی جیلوں میں قید ہیں۔ پاکستانی حکام کے مطابق، ان افراد کے خلاف سعودی قوانین کے تحت جرائم، بشمول غیر قانونی قیام، بھیک مانگنے، اور دیگر غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے الزامات ہیں۔ حکومت پاکستان نے سعودی عرب میں مقیم پاکستانی سفارت خانے کے ذریعے ان قیدیوں کی رہائی اور ان کے مقدمات میں قانونی معاونت کی فراہمی کے لیے اقدامات کیے تھے، تاہم ان میں سے کچھ افراد بارہا انہی جرائم میں ملوث پائے گئے، جس کی وجہ سے پاکستانی حکام نے ان کے پاسپورٹ بلاک کر دیے ہیں۔ پاکستانی حکومت کے اس فیصلے سے متاثرہ افراد کو مزید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، اور سعودی عرب میں موجود پاکستانی کمیونٹی نے اس حوالے سے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ پاکستانی کمیونٹی کے نمائندوں نے پاکستانی حکومت سے اپیل کی ہے کہ وہ سعودی عرب میں قید پاکستانی شہریوں کے مسائل کے حل کے لیے مزید موثر اقدامات کرے اور ان کی مدد کرے تاکہ وہ وطن واپسی کے خواہشمند ہوں تو ان کے لیے قانونی راستے فراہم کیے جائیں۔ پاکستانی وزارت خارجہ نے اس معاملے پر بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ ان اقدامات کا مقصد پاکستانی شہریوں کی بین الاقوامی سطح پر ساکھ کو محفوظ بنانا ہے اور یہ عمل سعودی قوانین کی پاسداری کو یقینی بنانے کے لیے کیا گیا ہے۔
صوبائی دارالحکومت لاہور میں زیادتی کے بعد پیٹ میں پریشر پمپ سے ہوا بھر کر کمسن بچے کو قتل کرنے والے ملزم کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ ذرائع کے مطابق صوبائی دارالحکومت لاہور کے علاقے کاہنہ میں بدفعلی کرنے کے بعد پیٹ میں پریشر پمپ سے ہوا بھر کر 15 سالہ بچے حسن علی کو قتل کرنے والے سفاک ملزم کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ کمسن بچہ حسن علی کاہنہ میں ایک ڈائی فیکٹری میں ملازمت کرتا تھا جس کے پیٹ میں پریشر پمپ سے ہوا بھر کر قتل کر دیا گیا تھا۔ پولیس نے واقعے کے بعد قتل ہونے والے بچے کے والد کی مدعیت میں مقدمہ درج کر لیا تھا جس میں سے ایک نامزد ملزم کو گرفتار کر لیا گیا ہے اور دعویٰ کیا گیا ہے کہ ملزم کے ساتھیوں کو بھی جلد گرفتار کر لیا جائے گا۔ مقتول کے بے روزگار تھے اور گھر چلانے کے لیے اپنے بیٹے 15 سالہ حسن علی کو کاہنہ میں واقع ایک ڈائی فیکٹری میں ملازمت پر رکھوایا تھا جہاں دیگر فیکٹری ملازمین نے اسے اپنی ہوس کا نشانہ بنایا۔ ایف آئی آر کے مطابق ملزمان نے کمسن بچے سے زیادتی کرنے کے بعد اس کے پیٹ میں پریشر پائپ کے ذریعے ہوا بھر دی جس سے اس کا معدہ پھٹ گیا اور اسے تشویشناک حالت میں ہسپتال منتقل کیا گیا تاہم وہ جانبر نہ ہو سکا۔ مقتول کے والد کا کہنا تھا کہ وہ پہلے ہی بیروزگار تھا اور اب بیٹے کی موت کے بعد کندھوں پر بوجھ مزید بڑھ گیا ہے، اعلیٰ حکام سے مطالبہ ہے کہ اسے انصاف دلایا جائے۔
پنجاب اسمبلی میں شادی بیاہ کی تقریبات میں رقص وسرود کی محفلوں پر پابندی لگانے کی قرارداد پیش کر دی گئی ہے۔ ذرائع کے مطابق پنجاب اسمبلی میں شادی بیاہ کی تقریبات میں رقص وسرود کی محفلوں پر پابندی کی قرارداد حکومتی رکن حمیدہ میاں کی طرف سے پیش کی گئی جس میں کہا گیا ہے کہ کسی بھی معاشرے میں خاندانی تقریبات یا تہوار جیسے کہ شادی بیاہ وغیرہ مذہبی تعلیمات اور ثقافتی ومعاشرتی روایات کی آئینہ دار ہوتی ہیں۔ قرارداد کے مطابق ہمارے ملک خاص طور پر پنجاب میں رقص وسرود کی محفلوں کو سوشل میڈیا ویب سائٹس پر براہ راست نشر کرنا ایک روایت بنتی جا رہی ہے جن میں نہ صرف رقص کے نام پر فحش اور بے حیائی سے بھرپور مجرے کروائے جاتے ہیں۔ تقریبات میں شراب کے نشے میں دھت افراد انتہائی غیرانسانی وغیراخلاقی حرکات کے مرتکب ہوتے ہیں۔ قرارداد کے مطابق ان محفلوں میں بلائے گئے خواجہ سرائوں اور خواتین رقاسائوں کے ساتھ بدسلوکی کے واقعات بھی پیش آتے رہتے ہیں اور بعض اوقات انہیں زخمی کرنے یا جان سے مارنے کے واقعات بھی منظرعام پر آچکے ہیں جو بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے ساتھ ساتھ ہماری معاشرتی ودینی روایات کے منافی ہیں۔ پنجاب اسمبلی کا یہ ایوان مرکزی وصوبائی حکومت سے یہ مطالبہ کرتا ہے کہ شادی بیاہ کی تقریبات کے موقع پر ایسی غیراخلاقی وفحش محفلوں کے انعقاد پر فوری طور پر سخت پابندی عائد کی جائے اور ایسے واقعات کی روک تھام کیلئے باقاعدہ طور پر قانون سازی کی جائے۔ قرارداد کے مطابق تعزیرات پاکستان کی دفعہ 294 مزید موثر بنانے کیلئے ترمیم کر کے باقاعدہ جرمانہ کی رقم وضع کر کے قید کی مدت بڑھائی جائے اور خواجہ سرائوں یا خواتین رقاصائوں کیساتھ بدسلوکی پر سخت قانونی کارروائی کی جائے۔ پولیس ودیگر متعلقہ اداروں کو ایسے گھنائونے واقعات کی تدارک کیلئے پابندی کیا جائے کہ وہ ایسے واقعات کا فوری نوٹس لے کر تادیبی کارروائی کریں۔ رقص وسرود کی محفلوں پر پابندی کی قرارداد پر بحث کے دوران رکن صوبائی اسمبلی عظمی کاردار نے مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ لوگوں کی چھوٹی چھوٹی خوشیاں پر پابندی نہ لگائی جائے۔ اسمبلی میں قرارداد پیش کرنے والی خاتون پتا نہیں کون سی شادیوں میں شرکت کرتی ہیں، ہم اپنے بچوں کی شادیوں پر پنجاب کی ثقافت کے مطابق شادی بیاہ کی تقریبات میں خوشیاں منانے پر پابندی لگانے کیخلاف ہیں۔ سپیکر پنجاب اسمبلی ملک محمد احمد خان کا کہنا تھا کہ ڈی پی او کسی تقریب میں مہک ملک کو بلائے تو کلچر اور آرٹ، غریب آدمی بلائے تو فحاشی قرار دیا جاتا ہے، شادی کی تقریبات میں خواتین اور خواجہ سرائوں کے ڈانس وبدسلوکی پر قرارداد میں ترمیم کیلئے کمیٹی کے سپرد کر دی ہے۔ سمیع اللہ خان نے کہا سماج ہی سماجی برائیوں کو روکتا ہے، پاکستان میں بدقسمتی سے کوئی سماجی پریشر گروپ نہیں اور اس قرارداد کو ثقافتی سماجی روایات کے مطابق ڈرافٹ کیا جائے۔
فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی کی طرف سے کراچی کے سرکاری میڈیکل وڈینٹل کالجز اور جامعات میں داخلہ لینے کیلئے ایم ڈی کیٹ ٹیسٹ میں 97 فیصد نمبرز حاصل کرنے والے طلباء کو طلب کر لیا گیا ہے۔ ذرائع کے مطابق سرکاری میڈیکل وڈینٹل کالجز اور جامعات میں داخلہ لینے کیلئے ایم ڈی کیٹ ٹیسٹ میں 97 فیصد نمبرز حاصل کرنے والے طلباء کو فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی کے سائبر کرائم سیل کراچی میں طلب کر لیا گیا ہے جس کیلئے نوٹیفیکیشن جاری کر دیا گیا ہے۔ فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی کی طرف سے جاری کیے گئے باضابطہ نوٹس میں کہا گیا ہے کہ 97 فیصد نمبرز حاصل کرنے والے طلباء کو یکم نومبر 12 بجے دن فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی کے سائبر کرائم سرکل میں پیش ہوں۔ کسی بھی طالب علم کے لیے عملی طور پر اتنے زیادہ نمبرز حاسل کرنے ممکن نہیں ہے اور شبہ ہے کہ طلباء ایم ڈی کیٹ ٹیسٹ کا پرچہ لیک ہونے میں ملوث اور حقائق سے واقفیت رکھتے ہیں۔ ڈپٹی ڈائریکٹر ایف آئی اے سائبر کرائم کے مطابق طلباء کا بیان منصفانہ عمل کے لیے ریکارڈ کرنا ضروری ہے اور دفتر میں ان کا فرضی امتحان بھی لیا جا سکتا ہے۔ حکام کا کہنا ہے کہ قانونی کارروائی ریکارڈ پر دستیاب شواہد کی بنیاد پر ہی کی جائے گی اور سائبر کرائم سیل میں طلب کیے گئے تمام طلباء کا تعلق مختلف اعلیٰ ثانوی تعلیمی بورڈز سے ہے۔ واضح رہے کہ 2 دن پہلے سندھ ہائیکورٹ کی طرف سے سرکاری میڈیکل وڈینٹل کالجز اور جامعات میں داخلہ لینے کے لیے ایم ڈی کیٹ ٹیسٹ 4 ہفتوں میں دوبارہ سے لینے کا حکم جاری کیا گیا ہے، عدالت نے ایم ڈی کیٹ میں مبینہ بے ضابطگیوں کے خلاف درخواست کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ کیس کی پچھلی سماعت پر کمیٹی قائم کرنے کا حکم دیا تھا ، کچھ کام بھی کیا یا گھر پر ہی سوتے رہے؟
کے الیکٹرک حکام کی طرف سے سروس ایریا میں کرنٹ لگنے کے واقعات میں جان سے ہاتھ دھونے والے متعدد شہریوں کو ذہنی مریض، نشے کا عادی اور چور قرار دے دیا گیا۔ ذرائع کے مطابق کے الیکٹرک کی طرف سے نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) کو سروس ایریا میں کرنٹ لگنے کے باعث جان سے ہاتھ دھونے والے 33 شہریوں کے معاملے پر جواب میں اموات کی تفصیلات جمع کروائی گئی ہیں جس میں کچھ شہریوں کو نامعلوم اور متعدد کو ذہنی مریض، نشے کا عادی اور چور قرار دے دیا گیاہے۔ کے الیکٹرک کی طرف سے نیپرا کو جمع کروائے گئے جواب میں کہا گیا ہے کہ دلدار نامی ذہنی مریض شخص 11 کے وی کے کھمبے پر چڑھ گیا اور کرنٹ لگنے سے جاں بحق ہو گیا، کراچی کے علاقے ویسٹ ہارف میں کرنٹ لگنے کے باعث جان سے ہاتھ دھونے والا شہری نشہ کرنے کا عادی تھا جبکہ ایک شہری سب سٹیشن سے بجلی چوری کرنے کی کوشش میں کرنٹ لگنے کے باعث جاں بحق ہو گیا۔ کے الیکٹرک کی طرف سے نیپرا کو دی گئی تفصیلات کے مطابق کورنگی، لانڈھی، لیبر سکوائر، گلستان جوہر، بن قاسم، گلشن معمار، سائٹ ایریا، سپر ہائی، ملیر اور کراچی کے دیگر علاقوں میں نشہ کرنے کے عادی شہری کیبل چوری، بجلی چوری اور دیگر سامان چوری کرنے کی کوشش کے دوران جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ کے الیکٹرک کے مطابق کورنگی کے علاقے میں واقع سب سٹیشن سے بھی ایک لاش برآمد ہائی، پٹرولنگ کے دوران مائی کولاچی میں کرنٹ لگنے سے جاں بحق شہری کی لاش ملی جبکہ ایک نعش نالے سے برآمد ہوئی۔ نیپرا کے مطابق کے الیکٹرک کے زیرانتظام علاقوں میں 33 شہری پچھلے 2 سالوں میں جاں بحق ہوئے اور پچھلے مہینے شوکاز نوٹس پر کے الیکٹرک کا جواب مسترد کر کے 1 کروڑ روپے جرمانہ عائد کیا تھا۔ حکام کا کہنا ہے کہ نیپرا نے جاں بحق 33 شہریوں میں سے محمد اسلم نامی ایک شہری کے اہل خانہ کو 35 لاکھ روپے ادا کرنے کے ساتھ ساتھ اس کے وارث کو ملازمت دینے کی ہدایات جاری کی تھیں۔ اگست 2023ء میں شہریوں کی ہلاکت کے معاملے پر نیپرا کی طرف سے کے الیکٹرک کیخلاف کارروائی شروع کی گئی تھی اور کہا گیا تھا کہ کے الیکٹرک نیپرا قوانین پر عملدرآمد میں ناکام ہو گیا ہے۔
بشریٰ بی بی کی رہائی کے بدلے گنڈاپور نے کیا پیشکش کی؟ عمران بشریٰ اور وزیراعلیٰ کے پی کے سوا پارٹی میں کوئی نہیں جانتا بشریٰ بی بی کی رہائی کے بدلے گنڈاپور نے کیا پیشکش کی؟ عمران بشریٰ اور وزیراعلیٰ کے پی کے سوا پارٹی میں کوئی نہیں جانتا, انصار عباسی کی رپورٹ کے مطابق خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈا پور نے اپنی پارٹی کے رہنماؤں کو بتایا بشریٰ بی بی کی جیل سے حالیہ رہائی میں انہوں نے کردار ادا کیا تھا. پی ٹی آئی ذرائع نے بتایا گنڈا پور کو علم تھا بشریٰ بی بی کو کسی اور کیس میں گرفتار نہیں کیا جائے گا۔ حکام کی جانب سے انہیں آگاہ کیا گیا کہ بشریٰ بی بی کی اڈیالہ جیل سے رہائی کے بعد ان کی محفوظ نقل و حرکت کو یقینی بنانے کی خاطر ان کیلئے سیکیورٹی بھیجی جائے۔ انصار عباسی کی رپورٹ کے مطابق ان ذرائع کا کہنا ہے کہ گنڈا پور کو بتایا گیا تھا کہ بشریٰ بی بی کو جیل میں رکھنے کیلئے کسی اور کیس میں گرفتار نہیں کیا جائے گا لیکن یہ معلوم نہیں کہ جن لوگوں نے وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا سے رابطہ کرکے بشریٰ بی بی کی رہائی کا بتایا تھا اُن کو گنڈا پور نے کوئی یقین دہانی کرائی ہے یا نہیں۔ پی ٹی آئی کے ایک رہنما نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا دیگر کے علاوہ گنڈا پور نے انہیں بتایا تھا کہ انہوں نے بانی چیئرمین کی اہلیہ کو 9ماہ کی قید بعد رہا کرانے میں کردار ادا کیا تھا, گنڈاپور کی طرف سے ان کے ’’کردار‘‘ کے حوالے سے کوئی وضاحت نہیں دی گئی۔ انہوں نے مزید کہا وزیر اعلی ہونے کی حیثیت سے وہ واحد پارٹی رہنما ہیں جن کی اسٹیبلشمنٹ تک رسائی ہے، گنڈا پور عمران خان کے ساتھ بھی رابطے میں ہیں, پارٹی کے اندر یہ باتیں چل رہی ہیں کہ عمران خان، بشریٰ بی بی اور گنڈا پور وہ تین لوگ ہیں جنہیں علم ہوگا کہ بشریٰ بی بی کو کیوں اور کن شرائط پر دوبارہ گرفتار نہیں کیا گیا اور انہیں جانے دیا گیا۔ ایک اہم سرکاری ذریعے نے چند روز قبل اس نمائندے کو بتایا تھا کہ بشریٰ بی بی کی رہائی کسی ڈیل کا نتیجہ نہیں لیکن انہوں نے یہ انکشاف کیا تھا کہ عدالت کی جانب سے ضمانت منظور ہونے پر انہیں جیل میں نہ رکھنے کا فیصلہ کیا گیا تھا,متعلقہ حکام اور پی ٹی آئی ذرائع نے تصدیق کی کہ بشریٰ بی بی کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے میرٹ پر ضمانت دی تھی لیکن ماضی کے برعکس اس مرتبہ انہیں جیل میں مزید عرصہ کیلئے قید رکھنے کیلئے کسی اور کیس میں گرفتار نہیں کیا گیا۔ سابق وزیراعظم عمران خان کی اہلیہ کو گزشتہ جمعرات کو رہا کیا گیا تھا، جس کے ایک دن قبل اسلام آباد ہائی کورٹ نے سرکاری تحائف کی غیر قانونی فروخت سے متعلق کیس میں ان کی ضمانت منظور کی تھی, بشریٰ بی بی کی رہائی کو عمران خان اور ان کی فیملی کیلئے گزشتہ سال اگست کے بعد سے سب سے بڑا قانونی ریلیف سمجھا جا رہا ہے۔
زیر التوا کیسز کو نمٹانے کے لیے سپریم کورٹ کا جسٹس منصور علی شاہ کا منصوبہ اپنانے کا فیصلہ زیر التوا کیسز کو نمٹانے کے لئے سپریم کورٹ نے جسٹس منصور علی شاہ کا منصوبہ اپنانے کا فیصلہ کرلیا, سپریم کورٹ کے فل کورٹ اجلاس نے کیسز کے بڑھتے ہوئے بیک لاگ کو نمٹانے کے لیے کیس مینجمنٹ پلان 2023 کو اپنا لیا جہاں یہ منصوبہ سینئر جج جسٹس سید منصور علی شاہ کی ذہن سازی کا نتیجہ ہے۔ رپورٹ کے مطابق چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس یحییٰ آفریدی کی زیرصدارت اجلاس میں جسٹس منصور علی شاہ کے وضع کردہ ایک ماہ کے کیس مینجمنٹ پلان کا جائزہ لیا گیا جہاں اس منصوبے میں واضح معیارات کو متعین اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کو مربوط کرتا ہے تاکہ تمام کیٹیگری کے مقدمات کو مؤثر طریقے سے چلایا جا سکے۔ چیف جسٹس کی طرف سے بلائے گئے اجلاس میں جسٹس منصور شاہ سمیت سپریم کورٹ کے تمام ججز نے شرکت کی جو بیرون ملک سے ویڈیو لنک کے ذریعے شریک ہوئے,اجلاس کا مقصد مقدمے کے بیک لاگ کو کم اور عدالتی کارکردگی کو بہتر بنانے پر زور دینے کے ساتھ ساتھ ادارے اور مقدمات کو نمٹانے میں سپریم کورٹ کی کارکردگی کا جائزہ لینا تھا، رجسٹرار جزیلہ اسلم نے کیس کے موجودہ بوجھ کا ایک جامع جائزہ پیش کیا اور کیس کے بروقت حل کے لیے اقدامات کا خاکہ پیش کیا۔ رجسٹرار نے تازہ ترین اعدادوشمار پیش کیے جس سے ظاہر ہوتا ہے59ہزار 191 مقدمات زیر التوا ہیں اور جسٹس منصور علی شاہ کے تیار کردہ کیس مینجمنٹ پلان 2023 پر مبنی ایک ماہ کا نیا منصوبہ متعارف کرایا، اس منصوبے میں مختلف کیٹیگریز میں کیس مینجمنٹ کو ہموار کرنے کے لیے واضح معیارات مرتب کرنے کے ساتھ ساتھ انفارمیشن ٹیکنالوجی کا استعمال بھی شامل ہے۔ منصوبے پر بحث کرتے ہوئے ججوں نے اہداف کے حصول کے لیے مختلف حکمت عملیوں پر غور کیا، بنائے گئے ماہانہ منصوبے میں فوجداری اور دیوانی مقدمات خصوصی دو اور تین رکنی بینچوں کے لیے مختص کیے گئے ہیں تاکہ کیس کے حل کا عمل تیز تر کیا جا سکے۔ ججوں نے نظام کو بہتر بنانے کے لیے اضافی بصیرتیں اور سفارشات بھی شیئر کیں اور مقدمات کی بڑھتی ہوئی تعداد کو کم کرنے کے لیے اپنے عزم کا اعادہ کیا,جسٹس منصور علی شاہ نے ویڈیو لنک کے ذریعے اجلاس میں شرکت کرتے ہوئے مزید حکمت عملیوں کی تجویز پیش کی جس کا مقصد کیس کے بیک لاگ کو کم کرنا اور کارکردگی کا معیار بہتر بنانا تھا جس کے تحت ابتدائی طور پر ایک ماہ اور پھر تین اور چھ ماہ کے منصوبے تیار کیے جائیں گے.
توانائی کے شعبے کے گردشی قرضے میں اضافہ، حجم 2 ہزار 393 ارب ہوگیا توانائی کے شعبے کے گردشی قرضے میں اضافہ سامنے آگیا, حجم 2 ہزار 393 ارب تک جاپہنچا, قومی اسمبلی کو تحریری طور پر بتایا گیا کہ پاور سیکٹر کے گردشی قرضے میں 83 ارب کا اضافہ ہو گیا ہے اور گردشی قرضے کا حجم 2 ہزار 393ارب تک جا پہنچا ہے,تحریری جوابات میں صارفین سے ایک سال میں کیپیسٹی پیمنٹس کی مد میں 9 کھرب 79 ارب 29 کروڑ روپے وصول کیے جانے کا انکشاف بھی کیا گیا ہے. اسپیکر ایاز صادق کی زیر صدارت قومی اسمبلی کے اجلاس میں گردشی قرضوں کی تفصیلات پیش کردی گئی , جن کے مطابق مالی سال 24-2023 کے دوران پاور سیکٹر کے گردشی قرضے میں 83 ارب روپے اضافہ ہوا ہے۔ قومی اسمبلی میں وقفہ سوالات میں تحریری طور پر گردشی قرضوں کے حوالے سے بتایا گیا پاور سیکٹر کے گردشی قرضے میں 83 ارب روپے کے اضافے کے بعد قرض کا حجم 2 ہزار 393 ارب روپے ہوگیا,پاور ڈویژن کا سال 23-2022 میں گردشی قرضہ 57 ارب روپے کے اضافے سے 2 ہزار 310 ارب روپے تھا جبکہ سال 22-2021 میں گردشی قرضہ 27 ارب روپے کمی سے 2 ہزار 253 ارب روپے رہا۔ پاور ڈویژن کا سال 21-2020 میں گردشی قرضہ 130 ارب روپے اضافے سے 2 ہزار 280 ارب روپے رہا اور سال 20-2019 میں گردشی قرضہ 538 ارب روپے کے اضافے سے 2 ہزار 150 ارب روپے رہا, وزارت توانائی کی جانب سے قومی اسمبلی میں پیش تحریری جواب کے مطابق آئی پی پیز نے جولائی 2023 سے جون 2024 تک کیپیسٹی پیمنٹس کی مد میں 9 کھرب 79 ارب 29 کروڑ روپے وصول کئے گئے ہیں۔ دستاویز کے مطابق چائنہ پاور حب جنریشن کمپنی نے کیپیسٹی پیمنٹس کی مد میں 137 ارب، ہیونخ شندوم انرجی نے 113 ارب روپے کیپیسٹی پیمنٹس کی مد میں وصول کئے۔پورٹ قاسم الیکٹرک پاور کمپنی نے صارفین سے کیپیسٹی پیمنٹس کی مد میں 120 ارب 37 کروڑ وصول کئے۔ دستاویز کے مطابق کوئلے سے چلنے 8 والی آئی پی پیز نے 7 کھرب 18 ارب، گیس سے چلنے والی 11 آئی پی پیز نے کیپیسٹی پیمنٹس کی مد میں 72 ارب 63 کروڑ روپے جبکہ پن بجلی سے چلنے والی 3 آئی پی پیز نے 106 ارب روپے اور فرنس آئل سے چلنے والی 11 آئی پی پیز نے کیپیسٹی پیمنٹس کی مد میں 81 ارب 60 کروڑ وصول کیے گئے۔
پاکستان کے 29ویں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اپنے عہدے سے ریٹائر ہونے کے بعد برطانیہ کی قدیم ترین قانونی درسگاہ مڈل ٹیمپل میں اپنے اعزاز میں منعقد ہونے والی تقریب میں شرکت کرنے کے لیے بیرون ملک روانہ ہو گئے ہیں۔ ذرائع کے مطابق سابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ برطانیہ کی قدیم قانونی درسگاہ میں اپنے اعزاز میں منعقد ہونے والی تقریب میں شرکت کرنے کیلئے روانہ ہو گئے ہیں جہاں بطور بینچر منتخب ہونے والی وہ پہلی پاکستانی شخصیت ہوں گے۔ سابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو رواں برس مئی کے مہینے میں مڈل ٹیمپل کی طرف سے تقریب میں شرکت کی دعوت ملی تھی تاہم انہوں نے درسگاہ کی انتظامیہ کو خط لکھ کر آگاہ کیا تھا کہ وہ اپنے عہدے سے ریٹائر ہونے کے بعد ہی تقریب میں شریک ہو سکتے ہیں جس پر ان کے اعزاز میں تقریب کے لیے 29 اکتوبر کا دن مقرر کیا گیا تھا۔ لندن میں واقع مڈل ٹیمپل 4 قدیم ترین اور معتبر قانونی اداروں میں سے ایک ہے جنہیں دی انز آف کورٹ (انگلینڈ اور ویلز کے وکلاء کی تنظیم ) کے نام سے پکارا جاتا ہے، ان چاروں اداروں میں قانون کی تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ کو تربیت فراہم کی جاتی ہے اور پیشہ ورانہ وکالت میں داخلہ کے لیے لائسنس جاری کیا جاتا ہے۔ مڈل ٹیمپل کی بنیاد 14ویں صدی کے دوران رکھی گئی تھی اور صدیوں سے یہ برطانوی قانونی نظام کے مرکز میں اہم مقام کی حامل ہے، ادارے کی طرف سے وکلاء کو بار میں ششامل ہونے ہونے کیلئے تربیت اور لائسنس فراہم کیا جاتا ہے۔ مڈل ٹیمپ کے ممبران میں برطانیہ کے علاوہ بین الاقوامی سطح پر بہت سے اہم قانونی شخصیات شامل رہ چکی ہیں۔ مڈل ٹیمپل سے فارغ التحصیل طلبہ میں سرتھامس مور، مہاتما گاندھی اور ایڈمنڈبرک جیسی اہم شخصیات شامل ہیں اور قاضی فائز عیسیٰ بھی اسی قانونی درسگاہ سے قانون کی تعلیم حاصل کر چکے ہیں جبکہ ان کے والد نے بھی مڈل ٹیمپ کے گریجوایٹ تھے۔ مڈل ٹیمپل کا تعلیمی نظام انتہائی معیاری ہے جو اپنے طلبہ کو قانونی مہارتوں کے علاوہ عدالتی معاملات کی عملی تربیت دیتا ہے جس کے بعد وہ پیشہ ورانہ دنیا میں قدم رکھتے ہیں۔
وزیراعظم کے مشیر برائے سیاسی وقومی امور اور مسلم لیگ ن کے سینئر رہنما رانا ثناء اللہ نے اپنے ایک بیان ممکنہ طور پر لائی جانے والی 27 ویں آئینی ترمیم کی تفصیلات بیان کر دیں۔ رانا ثناء اللہ نے نجی ٹی وی چینل کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے 27 ویں آئینی ترمیم لانے کا عندیہ دیتے ہوئے کہا کہ اس میں فوجی عدالتیں بنانے کی بات بھی شامل ہو گی۔ وزیراعظم شہبازشریف نے اتحادی سیاسی جماعتوں سے 27 ویں آئینی ترمیم لانے کا وعدہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ 27 ویں آئینی ترمیم میں فوجی عدالتیں بنانے کی بات کے ساتھ ساتھ صوبہ سندھ کے بلدیاتی نظام میں فنڈز کی ڈسٹری بیوشن کے حوالے سے معاملات شامل ہوں گے۔ متحدہ قومی موومنٹ ki خواہش ہے کہ مرکزی حکومت صوبے کو جو بلدیاتی فنڈز فراہم کرتی ہے وہ ڈسٹرکٹ میں براہ راست منتقل ہوں کیونکہ وفاق صوبوں کو فنڈز دیتا ہے تو نچلی سطح تک پہنچ ہی نہیں پاتے۔ رانا ثناء اللہ کا کہنا تھا کہ ملٹری کورٹس کے حوالے سے بہت سی گفتگو ہو چکی ہے، ہم چاہتے ہیں کہ فاٹا جیسے مخصوص علاقوں میں فوجی عدالتیں قائم کی جائیں ، وہاں پر فوجی عدالتیں اس لیے بھی بننی چاہئیں کیونکہ وہاں پر عام شہری نہیں جاتے۔ بانی چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کے کیسز فوجی عدالتوں میں نہیں جائیں گے، اس ہونا نہ تو ہونا چاہیے نہ ہی ایسا کچھ ہو گا۔ انہوں نے سابق چیف جسٹس سپریم کورٹ قاضی فائز عیسیٰ کو چیف الیکشن کمشنر کے عہدے پر تعینات کرنے بارے خبروں کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ ریٹائرڈ ججز کے آئینی بینچ کا حصہ بننے کی خبریں پراپیگنڈا ہیں، ایسا کچھ نہیں ہے۔ 26 ویں آئینی ترمیم پر ہر پاکستانی شہری کی طرح نوازشریف بھی خوش ہیں، آئینی ترمیم کا جو مسودہ اصل مسود کے طور پر گردش کرتا رہا اس سے نوازشریف خوش نہیں تھے۔ رانا ثناء اللہ کا کہنا تھا کہ میں نے 26 ویں آئینی ترمیم کے تمام مسودوں کا مطالعہ کیا تھا جن میں مجھے سب سے معقول 3 نمبر مسودہ لگا تھا جس میں آئینی عدالتوں کا حوالہ دیا گیا تھا۔ تحریک انصاف کی طرف سے کہا گیا کہ آئینی عدالتوں کے بجائے آئینی بینچ بننا چاہیے، ہمیں تو یہ بھی پتا چلا تھا کہ آئینی بینچ کا خیال جوڈیشری کی طرف سے پیش کیا گیا تھا۔
جسٹس منصور علی شاہ کا فل کورٹ ریفرنس میں شرکت سے انکار پر مبنی رجسٹرار سپریم کورٹ کے نام لکھے گئے خط کے مندرجات منظرعام پر آگئے ہیں جن میں ان کا کہنا تھا کہ چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے اپنے ساتھی ججز میں تفریق پیدا کی۔ وزیراعظم کے مشیر برائے سیاسی امور رانا ثناء اللہ نے لاہور میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے جسٹس منصور علی شاہ خط پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ ججز ایک دوسرے کو خط لکھ رہے ہیں، جسٹس منصور علی شاہ نے جو خط لکھا، اس میں استعمال ہونے والی زبان سے انھوں نے پہلی بار اپنے مقام اور مرتبے کا خیال نہیں رکھا۔ انہوں نے خود کو چھوٹا ظاہر کیا۔ کاش وہ کل کا خط نہ لکھتے، ان کا عمرے پر چلے جانا ہی کافی تھا۔ انہوں نے کہا کہ26 ویں آئینی ترمیم کے جس مسودے کی منظوری دی گئی ہے وہ سربراہ جے یو آئی مولانا فضل الرحمن اور تحریک انصاف کی قیادت نے مل کر بنایا اور ہم اس لیے متفق ہوئے کہ قومی یکجہتی سامنے آئے۔ سابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کسی کا ادھار رکھنے والے آدمی نہیں ہیں، امید ہے کہ چیف جسٹس یحییٰ آفریدی معاملات کو بہتر کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ بانی چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی اور ان کی بہنوں کی ضمانت پر ڈیل کی بات غلط ہے، 26 ویں آئینی ترمیم منظور ہونے کے بعد یہ امید پیدا ہوئی ہے کہ پاکستان کو اب ماضی کی طرح چور راستوں سے نشانہ نہیں بنایا جا سکے گا اور سازشیں سر نہیں اٹھا سکیں گی۔ رانا ثناء اللہ کا کہنا تھاکہ ملکی معاشی ترقی میں مسلم لیگ ن نے ہمیشہ مثبت کردار ادا کیا، پاکستان بحرانی حالت سے باہر نکل آیا ہے اور اب ملک سیاسی ومعاشی استحکام کی طرف بڑھ رہا ہے۔ عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد حکومت بننے پر ڈیفالٹ کا خطرہ سر پر منڈلا رہا تھا تاہم مسلم لیگ ن نے سیاسی حقیقت کی روشنی میں ہر مرحلے پر بھرپور کردار ادا کیا اور سب کو ساتھ مل کر چلنے کی یقین دہانی کروائی۔ رانا ثناء اللہ کا کہنا تھا کہ ہماری جماعت نے دہشت گردی کیخلاف جنگ میں اہم کردار ادا کرتے ہوئے ملکی ترقی وخوشحالی کیلئے کام کیا، لوڈشیڈنگ کا خاتمہ کر کے توانائی بحران پر قابو پایا۔ نوازشریف کی قیادت میں پھلتے پھولتے پاکستان کو 2017ء میں ٹریک سے ہٹا دیا گیا، منتخب وزیراعظم کی حکومت کا غیرآئینی خاتمہ کیا تھا تاہم آج پنجاب اور وفاق میں ن لیگ کو بھرپور عوامی حمایت حاصل ہے۔ رانا ثناء اللہ کا کہنا تھا کہ امید ہے 26 ویں آئینی ترمیم منظور ہونے کی وجہ سے اب ملک کی خدمت کرنے والی حکومتوں کو غیرآئینی طور پر ختم کرنے کی چور راستے بند ہو گئے ہیں۔ ملک میں عدم استحکام پیدا کرنے کی ماضی میں بہت سے کوششیں کی گئیں مگر اب وہ راستے بند کر دیئے گئے ہیں اور اب سازشیں سر نہیں اٹھا سکیں گی۔
پاراچنار ٹل مین شاہراہ 15 ویں دن بھی ہر قسم کی ٹریفک وآمدورفت کے لیے بند ہے جس کی وجہ سے ضلع کرم کو ضروریات زندگی کی ہر قسم کی سپلائی معطل ہو چکی ہے اور صورتحال دن بدن سنگین ہوتی جا رہی ہے۔ ذرائع کے مطابق پاراچنار ٹل مین شاہراہ ہر قسم کی ٹریفک وآمدورفت کیلئے بند ہونے کی وجہ سے اشیائے خوردونوش، تیل، ایل پی جی کے علاوہ ادویات کی قلت ہوتی جا رہی ہے، پاراچنار کے رہائشیوں نے بتایا کہ شہر میں آدھا کلو چینی بھی نہیں مل رہی، ضرورت کی چیزیں نہ ملنے پر شدید مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں۔ ذرائع کے مطابق ٹیچر ایسوسی ایشن کا کہنا ہے کہ تیل کے دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے بہت سے سکولز بند ہو چکے ہیں اور جو کھلے ہیں اس میں بھی بچوں کی حاضری نہ ہونے کے برابر ہے، مین شاہراہ بند ہونے کی وجہ سے پبلک سروس کمیشن ٹیسٹ پاس کرنے والے درجنوں افراد کے انٹرویو کا وقت نکل گیا۔ میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ڈی ایچ کیو نے بتایا کہ ٹریفک بند ہونے سے ہسپتالوں میں ادویات کی قلت پیدا ہو چکی ہے اور پچھلے 2 ہفتوں کے دوران علاج نہ ہونے کی وجہ سے 3 شہری جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ بارڈرحکام کے مطابق پاک افغان خرلاچی بارڈر پر سپلائی معطل ہے، کسانوں کے مطابق مین شاہراہ بند ہونے سے کروڑوں روپے کا نقصان ہو رہا ہے، شلغم، گوبھی، ٹماٹر ودیگر سبزیوں کا سیزن ضائع ہو گیا۔ واضح رہے کہ پاراچنار ٹل مین شاہراہ بند ہونے کی وجہ سے انجمن حسینیہ کی کال پر عوام نے ضلع کرم کے 5 مقامات پر احتجاجی دھرنا شروع کیا تاہم روڈ پر ٹریفک وآمدورفت معطل ہے۔ انجمن حسینیہ کے سیکرٹری جلال حسین بنگش کا کہنا تھا کہ اگر حکومت نے 28 اکتوبر تک مین شاہراہ کو نہ کھولا گیا تو ہم پولیو مہم کا بائیکاٹ کر دیں گے اور 28 اکتوبر کے بعد پاکستان سمیت دنیا بھر میں احتجاجی مظاہرے شروع کریں گے۔ جلال حسین بنگش کا کہنا تھا کہ پیر کے روز بھی ہم نے علامتی دھرنا بٹھایا تھا لیکن اس کے باوجود مین شاہراہ کو نہیں کھولا گیا، ڈپٹی کمشنر کرم نے کہا کہ کنوائی پر فائرنگ کے بعد 12 اکتوبر کو سکیورٹی خدشات کے پیش نظر روڈ بند کیا گیا ہے جبکہ ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر اور ڈپٹی کمشنر نے اس معاملے پر موقف دینے سے انکار کر دیا۔
شمالی وزیرستان کے علاقے میر علی میں پولیس چیک پوسٹ پر ہونے والے خودکش حملے کے نتیجے میں 4 سکیورٹی اہلکاروں سمیت 6 افراد جان سے گئے۔ پولیس کے مطابق یہ حملہ عیدک کے علاقے میں ہوا، جہاں خودکش بمبار نے چیک پوسٹ کو نشانہ بنایا۔ اس واقعے میں کئی افراد زخمی بھی ہوئے ہیں۔ پولیس حکام کا کہنا ہے کہ حملے کے نتیجے میں 4 سکیورٹی اہلکار اور 2 شہری شامل ہیں جو اپنی جانوں سے گئے۔ امدادی کارروائیاں جاری ہیں، اور لاشوں اور زخمیوں کو قریبی اسپتال منتقل کیا جا رہا ہے۔ سکیورٹی فورسز نے فوری طور پر علاقے کو گھیرے میں لے لیا ہے اور سرچ آپریشن شروع کر دیا ہے تاکہ ممکنہ ملزمان کو پکڑا جا سکے۔ یہ واقعہ علاقے میں سیکیورٹی کی صورتحال پر سوالات اٹھاتا ہے، اور حکام کی جانب سے مزید تحقیقات کی جا رہی ہیں۔
پاکستانی معیشت کی موجودہ صورتحال پر ماہر معاشیات ڈاکٹر قیصر بنگالی نے شدید خدشات کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ اگر وزیر خزانہ نئے قرضے لے کر پرانے قرضے چکانے کی کوشش کر رہے ہیں تو یہ بات واضح کرتی ہے کہ ملک دیوالیہ ہونے کے قریب ہے۔ پریس کانفرنس میں ڈاکٹر قیصر نے آئی ایم ایف پروگرام کے بعد معیشت کی عارضی بہتری کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ مہنگائی میں کمی اور اسٹاک مارکیٹ کی بہتری عارضی ہیں، اور یہ مستقل معاشی استحکام کی علامت نہیں ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان گزشتہ ایک دہائی سے اقتصادی مشکلات کا شکار ہے، اور موجودہ حکومتی اقدامات اس بحران سے نکلنے کے لیے ناکافی ہیں۔ انہوں نے حکومتی اخراجات میں کمی کے لیے تشکیل دی گئی کمیٹی پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اس نے صرف گریڈ ایک سے پانچ کی ملازمتیں ختم کی ہیں، جبکہ اصل ضرورت اعلیٰ گریڈ کی آسامیوں میں کمی تھی۔ ڈاکٹر قیصر نے مزید کہا کہ ملک کے اقتصادی حالات بہت خراب ہیں، اور بین الاقوامی سرمایہ کار ملک چھوڑ رہے ہیں۔ انہوں نے ہنگامی اقدامات کی ضرورت پر زور دیا، یہ کہتے ہوئے کہ موجودہ صورتحال میں کوئی بھی ملک کے ادارے خریدنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ ان کی رائے کے مطابق حکومت نے اخراجات میں کمی کے لیے چھوٹے ملازمین کو نشانہ بنایا ہے، جبکہ اعلیٰ افسران کو کوئی متاثر نہیں کیا جا رہا، جو کہ ایک غیر منصفانہ اقدام ہے۔
پاکستان تحریک انصاف میں موجود وکلاء کے درمیان اختلافات میں شدت آ گئی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف میں انتشار اور عہدوں کی جنگ 26 ویں آئینی ترمیم پاس ہونے کے بعد عروج پر پہنچ چکی ہے اور سلمان اکرام راجہ نے تحریک انصاف کی لیگل ٹیم سے فیصل چوہدری کو فارغ کرنے کے ساتھ ساتھ پارٹی کے مختلف وٹس ایپ گروپوں سے بھی نکال دیا ہے۔ سلمان اکرم راجہ نے فیصل چوہدری کو کھری کھری سناتے ہوئے کہا کہ بانی چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان سے ملاقات کے بعد فیصل چوہدری کو میڈیا کے سامنے غیرضروری باتیں نہیں کرنی چاہئیں تھیں۔ تحریک انصاف کی قانونی ٹیم کی طرف سے انتظار پنجوتھہ کی گمشدگی کے بعد اپنا مرکزی وٹس ایپ گروپ ڈی ایکٹو کر دیا گیا تھا۔ انتظار پنجوتھہ کی کے اغوا کے بعد فیصل چوہدری کی طرف سے تحریک انصاف کی قیادت پر تحفظات کا اظہار کیا گیا تھا اور ان کا کہنا تھا کہ مجھے بانی تحریک انصاف عمران خان سے سچ بولنے کی سزا دی گئی ہے۔ بانی پی ٹی آئی اور پارٹی کارکنوں کے ساتھ جھوٹ نہیں بول سکتا، ڈی چوک پر احتجاج اور اس کے علاوہ جو کچھ بھی ہوا سب بتا دیا تھا، مجھے عمران خان سے سچ بولنے کی سزا ملی ہے اس کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ دوسری طرف فیصل چوہدری کو پی ٹی آئی کی لیگل ٹیم سے فارغ کرنے پر صحافی عادل نظامی نے ٹوئٹر (ایکس) پیغام پر ردعمل دیتے ہوئے لکھا: تحریک انصاف کی نئی قیادت کو سب سے زیادہ خوف فواد چودھری سے ہے، فواد چودھری جس طرح عمران خان کی ٹی وی پر ترجمانی کرتے ہیں نیا کوئی لیڈر نہیں کرپارہا، یہی غصہ فیصل چودھری پر نکلا ہے کہ سلمان اکرم راجہ نے انہیں گروپس سے ریموو کردیا! عادل چودھری کے پیغام پر فواد چودھری نے ردعمل دیتے ہوئے اپنے پیغام میں لکھا: یہ کون سی قیادت ہے؟ اس سے اچھا تو سٹیبلشمنٹ آفیشلی کوئی صوبیدار لگا دے! سلمان اکرم راجہ پانامہ سے لے کر نواز شریف کا وکیل ہے اور باقی کون لوگ ہیں، سٹیبلشمنٹ نے ہمیں تشدد اور جیلوں میں ڈال کر اپنے نمائندے پارٹی پر مسلط کئے جب عمران خان جیل ہیں، ان کی سیاسی زندگی ہے، جب عمران خان سلاخوں سے باہر آئے یہ نظر بھی نہیں آنے! سلمان اکرم راجہ نے اپنے ردعمل میں کہا کل میں اپنے کسی چپڑاسی کو فارغ کر دوں تو کیا آپ مجھ سے نیشنل ٹی وی پر سوال کریں گی، میں کوئی جواب نہیں دینا چاہتا، وہ جو مرضی بولیں میرے لئے غیر اہم ہیں صحافی زبیر علی خان نے بھی فیصل چوہدری کے حق میں ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا: سلمان اکرم راجہ اور بیرسٹر گوہر مولانا کے در پر بیٹھے محسن نقوی سے منتیں کرواتے تھے کہ ہماری ملاقات کروا دو، فیصل چوہدری نے یہ کام عدالت کے ذریعے کروادیا اور جا کر ان کی حقیقت عمران خان کو بتا دی۔ سیاست میں تو یہ نکمے تھے ہی وکالت میں بھی اناڑی نکلے!!! ان سے کارپوریٹ کیسز کروالیں، بھائی یہ سیاسی کیسز میں بندہ اندر کروانے کے ماہر ہیں !!!
پاکستان کے لئے بری خبر سامنے آگئی, معاشی تحقیقاتی ادارے پرائم کے مطابق پاکستان نے اگر بروقت اصلاحات نہ کیں تو یہ آئی ایم ایف کا آخری پروگرام نہیں ہو گا,معاشی تحقیقاتی ادارے نے پاکستان اور عالمی مالیاتی ادارے کے نئے قرض پروگرام پر رپورٹ جاری کر دی۔ معاشی تحقیقاتی ادارے کے مطابق آئی ایم ایف نے نئے قرض پروگرام کے لیے ایک ارب ڈالر کی پہلی قسط جاری کر دی, نئے قرض پروگرام کی پہلی قسط سے زرمبادلہ کے ذخائر بہتر ہوں گے,رپورٹ میں کہا گیا نئے قرض پروگرام سے پاکستان کے قرضوں میں مزید اضافہ ہو گا,قرض پروگرام سے بیرونی ادائیگیوں کے حصول میں مدد ملے گی۔ پرائم کی رپورٹ کے مطابق نئے پروگرام کے اہداف میں پاکستان معاشی اصلاحات کو نظر انداز نہیں کرسکتا ہے,پاکستان کو جولائی تا اگست ٹیکس ہدف میں 98 ارب روپے کے شارٹ فال کا سامنا ہے, سرکاری اداروں کے نقصانات میں بھی مسلسل اضافہ ہو رہا ہے,رپورٹ میں کہا گیا نجکاری کے پروگرام میں تیزی لانے کی ضرورت ہے۔ اور سرکار کے اخراجات میں کمی کے لیے رائٹ سائزنگ وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ دوسری جانب اسلامک ٹریڈ فنانسنگ کارپوریشن نے پاکستان کے لئے اربوں ڈالر کے قرض کا اعلان کردیا، قرض کی رقم آئندہ3سال میں فراہم کی جائے گی, واشنگٹن میں وزیرخزانہ محمداورنگزیب اور آئی ٹی ایف سی وفد میں ملاقات کے بعد اعلامیہ جاری کردیا گیا۔
پاکستان کی عدالتی تاریخ میں کئی ججز نے متنازعہ فیصلے کیے ہیں، جن میں سے ایک فائز عیسیٰ بھی شامل ہیں۔ ان کے بعض فیصلے اور اقدامات ملک کی سیاسی اور آئینی سمت پر گہرا اثر رکھتے ہیں۔ ذیل میں ان کے کچھ ایسے فیصلے اور اقدامات پر روشنی ڈالی گئی ہے جن پر عوامی و سیاسی حلقوں میں تنقید کی جاتی رہی ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کا انتخابی نشان چھیننا ایک اہم اور متنازعہ اقدام فائز عیسیٰ نے پی ٹی آئی کا انتخابی نشان واپس لینے کے حوالے سے کیا۔ اس فیصلے نے پی ٹی آئی کے سیاسی موقف کو متاثر کیا اور اس کی عوامی حمایت پر بھی اثر ڈالا۔ فوجی عدالتوں کو قانونی حیثیت دینا فائز عیسیٰ نے فوجی عدالتوں کو قانونی حیثیت دی، جو کہ انسانی حقوق کے علمبرداروں کی نظر میں ایک متنازعہ فیصلہ تھا۔ مزید برآں، اس فیصلے پر اپیل کا حق بھی نہیں دیا گیا، جس سے عدالتی شفافیت پر سوالات اٹھے۔ بیوروکریٹس کو ریٹرننگ آفیسر مقرر کرنا پاکستان میں عام انتخابات کے دوران جوڈیشل افسران کی جگہ بیوروکریٹس کو بطور ریٹرننگ آفیسر مقرر کرنا ایک غیر معمولی فیصلہ تھا۔ اس فیصلے نے انتخابات کی شفافیت اور غیرجانبداری پر خدشات پیدا کیے۔ پنجاب میں انتخابی ٹربیونلز کے فیصلے فائز عیسیٰ کے دور میں پنجاب کے انتخابی ٹربیونلز میں نیک نام اور باصول ججوں کے نوٹیفیکیشن کو سبوتاژ کیا گیا، جس سے عدلیہ کے وقار کو نقصان پہنچا اور اس پر تنقید کی گئی کہ اس فیصلے نے انتخابی عمل کو متنازعہ بنایا۔ آرٹیکل 63 اے کے اثر کو کم کرنا آئین کے آرٹیکل 63 اے میں تبدیلی کر کے، فائز عیسیٰ نے ہارس ٹریڈنگ کے دوبارہ آغاز کی راہ ہموار کی۔ یہ اقدام سیاست میں غیر آئینی حرکتوں کو دوبارہ جنم دینے کا ذریعہ بنا اور اسٹیبلشمنٹ اور پارلیمنٹ کے درمیان تعلقات پر سوالات اٹھائے۔ پارلیمنٹ میں پی ٹی آئی کی مخصوص نشستیں واپس لینے کی کوشش فائز عیسیٰ نے پی ٹی آئی کو پارلیمنٹ میں اس کی مخصوص نشستوں سے محروم کرنے کی ہر ممکن کوشش کی، جسے سیاسی انتقامی کارروائی کے طور پر دیکھا گیا۔ پی ٹی آئی اور عمران خان کے کیسز میں بینچ فکسنگ پی ٹی آئی اور عمران خان کے کیسز میں واضح بینچ فکسنگ کے الزامات سامنے آئے، جس نے عدلیہ کی غیرجانبداری اور شفافیت پر سوالات اٹھائے اور عوامی اعتماد کو متاثر کیا۔ ای سی پی میں پی ٹی آئی کی نشستوں کی دوبارہ گنتی الیکشن کمیشن میں پی ٹی آئی کی نشستوں کو دوبارہ گنتی کے ذریعے چھیننے کا ڈرامہ کیا گیا۔ اس فیصلے پر پی ٹی آئی نے انتخابی عمل میں مداخلت کا الزام لگایا۔ انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں اور لاپتہ افراد کے مسائل پر خاموشی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں، اختیارات کے ناجائز استعمال، لاپتہ افراد کے مسائل اور پولیس کی زیادتیوں پر فائز عیسیٰ نے مبینہ طور پر آنکھیں بند کر لیں، جو کہ انسانی حقوق کے علمبرداروں کے نزدیک ایک افسوسناک رویہ تھا۔ عوامی مینڈیٹ کی چوری پر خاموشی اور مبینہ سہولت کاری 1971 کے بعد سے عوامی مینڈیٹ کی سب سے بڑی چوری پر خاموشی اختیار کرنا اور مبینہ طور پر سہولت کاری کرنا بھی فائز عیسیٰ کے اقدامات میں شامل ہیں، جس سے جمہوری عمل پر عوامی اعتماد کو ٹھیس پہنچی۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججوں کی ہراسانی پر خاموشی اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ ججوں کو ہراساں کیے جانے کی شکایت پر کارروائی نہ کرنا، ایک اور متنازعہ فیصلہ تھا جس نے عدالتی نظام میں احتساب کی کمی کو بے نقاب کیا۔ ساتھی ججز کے ساتھ ٹکراؤ اور وکلا کے ساتھ جارحانہ رویہ فائز عیسیٰ پر ساتھی ججز کے ساتھ ٹکراؤ اور وکلا کے ساتھ جارحانہ رویہ اپنانے کے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔ ان کا یہ رویہ نہ صرف عدلیہ کے اندر ہم آہنگی میں خلل ڈالتا رہا بلکہ وکلا برادری کے ساتھ تعلقات میں بھی تنازع کا باعث بنا۔ اس سے عدلیہ کی اندرونی یکجہتی متاثر ہوئی، اور بعض حلقوں نے اسے عدالتی اصولوں اور اخلاقیات کے خلاف قرار دیا۔ اس رویے نے نہ صرف ججز کے درمیان اختلافات کو جنم دیا بلکہ عدلیہ میں تعاون کی فضا بھی متاثر کی، جس کے باعث عدالتی وقار کو نقصان پہنچا۔ چیف الیکشن کمشنر اور الیکشن کمیشن کے متنازع فیصلوں کی حمایت فائز عیسیٰ پر چیف الیکشن کمشنر اور الیکشن کمیشن کے متنازع فیصلوں کی حمایت کرنے کا الزام بھی لگایا جاتا ہے۔ ان پر الزام ہے کہ انہوں نے ایسے فیصلوں کی حمایت کی جن سے مخصوص سیاسی جماعتوں کو نقصان اور دیگر کو فائدہ پہنچا۔ ان فیصلوں میں پی ٹی آئی کی نشستوں کی دوبارہ گنتی اور مخصوص حلقوں میں انتخابی نتائج کو تبدیل کرنے جیسے اقدامات شامل ہیں۔ اس رویے کو غیر جانبداری کے اصولوں کے منافی سمجھا جاتا ہے اور اسے الیکشن کمیشن کی ساکھ اور غیر جانبدارانہ حیثیت کو نقصان پہنچانے کا سبب قرار دیا گیا ہے۔ 26 ویں آئینی ترمیم کے لیے فلور کراسنگ کی راہ ہموار کرنا فائز عیسیٰ پر 26 ویں آئینی ترمیم کے لیے فلور کراسنگ (floor crossing) کی راہ ہموار کرنے کا الزام بھی عائد کیا جاتا ہے۔ ان پر تنقید کی جاتی ہے کہ انہوں نے ایسے قانونی فیصلے کیے جس سے ارکان اسمبلی کو پارٹی لائن کے برخلاف ووٹ ڈالنے کا راستہ فراہم کیا گیا۔ اس ترمیم کے ذریعے فلور کراسنگ کی روک تھام کو کمزور کیا گیا، جس سے ہارس ٹریڈنگ کے امکانات بڑھ گئے اور پارلیمنٹ میں سیاسی استحکام متاثر ہوا۔ یہ اقدام آئین کے آرٹیکل 63 اے کی روح کے خلاف سمجھا جاتا ہے اور سیاسی حلقوں میں اس کی شدید مخالفت کی جاتی ہے۔ یہ اقدامات فائز عیسیٰ کی متنازعہ حکمت عملیوں کی نشاندہی کرتے ہیں اور پاکستانی عوام کے عدالتی نظام پر اعتماد میں کمی کا باعث بنے ہیں۔ اس پر مختلف حلقوں کی جانب سے تنقید جاری ہے۔
خیبرپختونخوا کے حلقہ NA-8 باجوڑ سے منتخب رکن قومی اسمبلی مبارک زیب نے 26 ویں آئینی ترامیم کیلئے مرکزی حکومت کا ساتھ کے حوالے سے اپنا موقف دیتے ہوئے کہا کہ ووٹ دینے کا فیصلہ سوچ سمجھ کر کیا۔ نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے ایم این اے مبارک زیب نے کہا کہ تحریک انصاف نے میرے بھائی شہید ریحان زیب کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا اسی لیے ترامیم کیلئے ووٹ دینے کا فیصلہ کیا، میرے بھائی کی روح کو میرے فیصلے سے سکون مل گیا ہو گا۔ مبارک زیب نے کہا کہ مرکزی حکومت کی طرف سے میرے حلقے کے لیے فنڈز جاری کرنے کا وعدہ بھی کیا گیا جبکہ حکومت سے مشیر بنانے کا مطالبہ بھی کیا ہے۔ مرکزی حکومت سے اپنے بھائی شہید ریحان زیب کے قاتلوں کو گرفتار کرنے کے معاملے پر بھی بات چیت ہوئی ہے، تحریک انصاف کے ٹکٹ پر نہیں میں نے انتخابات میں آزاد حیثیت میں کامیابی حاصل کی۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان تحریک انصاف نے تو مجھے اپنے پارلیمانی پارٹی وٹس ایپ گروپ تک میں شامل نہیں کیا، میرے ساتھ پی ٹی آئی نے سوتیلی ماں جیسا سلوک کیا۔ تحریک انصاف کا رویہ ایسا ہی رہتا ہے اور وفاقی حکومت بھی تعاون نہ کرتی تو میرے علاقے کا کیا بنتا؟ وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کی طرف سے آج تک اپنے علاقے کیلئے ایک پائی تک نہیں ملی۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا نے ایکسائز پولیس کی ایک گاڑی مجھے فراہم کی تھی جو واپس لے لی گئی، میں نہ تو تحریک انصاف سے وابستہ ہوں اور نہ ہی کسی دوسری سیاسی جماعت میں شمولیت اختیار کی ہے۔ واضح رہے کہ ایم این اے مبارک زیب باجوڑ سے تعلق رکھنے والے تحریک انصاف کے شہید کارکن ریحان زیب کے بھائی ہیں، عام انتخابات سے پہلے NA-8 باجوڑ سے آزاد امیدوار منتخب ہونے والے ریحان زیب کو نامعلوم افراد نے فائرنگ کر کے قتل کر دیا تھا۔
بٹگرام میں سپرٹنڈنٹ شہریار خان کے خلاف 20 سالہ قیدی لڑکی صدف بی بی کے ساتھ جنسی زیادتی کے معاملے میں شکوک و شبہات بڑھ رہے ہیں۔ ایڈیشنل جج امان اللہ نے شہریار خان کی ضمانت قبل از گرفتاری منسوخ کر دی، جس نے 2 اکتوبر 2024 کو صدف بی بی کو نشانہ بنایا تھا۔ یہ واقعہ ایک ایسے پس منظر میں پیش آیا جب صدف بی بی کے والد خادی خان نے خود اپنی بیٹی کے خلاف پولیس میں مقدمہ درج کرایا۔ خادی خان کا کہنا ہے کہ صدف گھر سے ناراض ہو کر چلی گئی تھی، جبکہ تحقیقات میں معلوم ہوا کہ صدف کی غیرموجودگی کے دوران گھر سے زیورات اور دیگر سامان چوری ہوا۔ خادی نے صدف کے غائب ہونے کا کوئی خدشہ ظاہر نہیں کیا اور ایف آئی آر میں صدف کو گمشدہ یا اغوا قرار نہیں دیا۔ صدف کے ساتھ زیادتی کا واقعہ اس کے جیل میں رہتے ہوئے پیش آیا۔ جیل کے عملے کو اس واقعے کا علم 24 گھنٹوں کے بعد ہوا، جب صدف نے اپنے بھائی کو اس کی اطلاع دی۔ مقامی پولیس نے میڈیکل ٹیسٹ کے نتائج کی روشنی میں شہریار خان کے خلاف کارروائی کی، لیکن ڈی این اے ٹیسٹ کے لیے ضروری نمونے جمع نہیں کیے گئے۔ وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا نے واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے انکوائری کا حکم دیا ہے۔ اس کے علاوہ، شہریار خان کو عہدے سے ہٹا کر او ایس ڈی بنا دیا گیا ہے۔ خادی خان نے بتایا کہ صدف شدید نفسیاتی دباؤ کا شکار ہیں اور انہیں کسی رشتہ دار کے ہاں رکھا گیا ہے۔ علاقے کے لوگ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ شہریار خان ممکنہ طور پر سیاسی اثرورسوخ استعمال کر رہا ہے تاکہ اس معاملے میں صلح کی کوشش کر سکے۔ بٹگرام میں اس واقعے نے عوامی ردعمل کو بھی جنم دیا ہے، اور ایسے معاملات میں انصاف کی کمی کے حوالے سے تشویش بڑھ رہی ہے۔
وفاقی کابینہ کی منظوری کے بعد دونوں ایوانوں سے 26 ویں آئینی ترمیم کی منظوری دی جا چکی ہے جس پر مختلف سیاسی وسماجی رہنمائوں کی طرف سے تحفظات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ سیاسی وسفارتی بین الاقوامی تنظیم اقوام متحدہ کے سربراہ انسانی حقوق واکر ٹرک نے بھی 26 ویں آئینی ترامیم پر اپنے تحفظات کا کرتے ہوئے کہا ہے کہ انہیں خدشہ ہے 26 ویں آئینی ترمیم سے عدلیہ کی آزادی مجروح ہو گی، انہیں عالمی قوانین سے ہم آہنگ ہونا چاہیے۔ عدلیہ کے حوالے سے 26 ویں آئینی ترمیم میں بہت سے تبدیلیاں کی گئی ہیں جن میں سپریم کورٹ آف پاکستان کے ازخود نوٹس لینے کے اختیارات کو سلب کر لیا گیا ہے اور سپریم کورٹ کے 3 سینئر ترین ججز میں سے چیف جسٹس آف پاکستان کو نامزد کرنے کا اختیار بھی پارلیمانی کمیٹی کو دے دیا گیا ہے۔ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق دفتر کے آفیشل ٹویٹر اکائونٹ سے جاری کیے گئے ایک پیغام میں کہا گیا ہے کہ: پاکستان میں 26 ویں آئینی ترمیم کو منظور کرنے کے لیے وسیع تر مشاورت اور بحث ومباحثے کو نظرانداز کر کے جلدبازی سے کام لیا گیا ہے۔ واکر ٹرک نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اس سے عدلیہ کی آزادی مجروح ہو گی، آئینی ترامیم کو بین الاقوامی انسانی حقوق کے قوانین سے ہم آہنگ ہونا چاہیے ۔ قبل ازیں انٹرنیشنل کمیشن فار جیورسٹس (آئی سی جے) کی طرف سے بھی ایک بیان میں 26 ویں آئینی ترمیم کی منظوری کو عدلیہ کی آزادی کے لیے دھچکا قرار دیا گیا تھا۔ سیکرٹری جنرل آئی سی جے سنتیا گوکینٹن کا کہنا تھا کہ پاکستان میں عدلیہ کو ریاست کے دوسرے حصوں تک رسائی اور انسانی حقوق کا تحفظ کرنے سے روک کر اس کی موثروآزادانہ انداز میں کام کرنے کی استعداد ختم کر دی گئی ہے۔ واضح رہے کہ پاکستان تحریک انصاف کی طرف سے 26 ویں آئینی ترمیم منظور ہونے کے بعد نتائج کی پرواہ کیے بغیر آئینی ترامیم کے خلاف ملک گیر تحریک شروع کرنے کا اعلان کیا جا چکا ہے۔ انسانی حقوق کمیشن آف پاکستان اور وکلاء کی طرف سے آئینی ترمیم واپس لینے کا مطالبہ کرتے ہوئے اس خدشے کا اظہار کیا گیا ہے کہ نتیجے میں عدلیہ حکومت کے تسلط میں آ جائے گی۔ یاد رہے کہ 26 ویں آئینی ترمیم کے ذریعے آئین میں کچھ بنیادی تبدیلیاں کی گئی ہیں جن میں ہائیکورٹس کے ازخود نوٹس لینے کا اختیار ختم، آئینی بینچز قائم کرنے اور ہائیکورٹ ججز کی کارکردگی جانچنے کا نظام بھی متعارف کروایا گیا ہے۔ آئینی ترمیم میں سپریم کورٹ کو اختیار گیا ہے کہ وہ کوئی بھی کیس خود منتقل کر سکتی ہے اور چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ کی تقرری کے عمل میں وفاقی وزیر اور ایک سینئر وکیل بھی شامل ہوں گے۔

Back
Top