کراچی، 1992 میں 100روپے فی اسکوائر یارڈ زمین الاٹ کیے جانے پر عدالت برہم

4%D8%B3%DA%BE%DA%86%D9%BE%DB%81%D9%84%DB%8C%DA%86%DB%8C%DA%86%DA%BE%DB%81%D9%88%DA%A9%DB%8C.jpg

کراچی کے علاقے سچل کی پولیس چوکی کی اراضی پر ملکیت کا دعویٰ کرنا شہری کو مہنگا پڑگیا، سندھ ہائیکورٹ نے زمین 100 روپے فی اسکوائر یارڈ الاٹ ہونے سے متعلق درخواست قابل سماعت ہونے پر دلائل طلب کرلیے۔

سندھ ہائیکورٹ کے جسٹس سید حسن اظہر رضوی کی سربراہی میں دو رکنی بینچ کے روبرو سچل پولیس چوکی اراضی پر ملکیت کے دعویٰ سے متعلق درخواست کی سماعت ہوئی۔

عدالت نے ریمارکس دیئے کہ پہلے یہ ثابت کریں، آپ کو کس قانون کے تحت زمین الاٹ ہوئی۔ درخواست گزار کے وکیل نے موقف اپنایا کہ سیکٹر 45 اے اسکیم 33 پر ہماری اراضی پر پولیس چوکی بنا دی گئی۔ پولیس چوکی ختم کرنے کا حکم دیا جائے۔

عدالت نے استفسار کیا کہ پہلے یہ بتائیں، آپ کو یہ زمین کیسے الاٹ ہوئی؟ ریاست کی زمین بغیر نیلامی کے کیسے آپ کو مل گئی؟ ریاست کی زمین پر پولیس چوکی بن گئی تو کیا حرج ہے؟ درخواست گزار شہری کے وکیل نے بتایا کہ 1992 میں 100 روپے فی اسکوائر یارڈ یہ زمین خریدی تھی۔

عدالت نے استفسار کیا کہ 100 روپے فی اسکوائر یارڈ آپ کو زمین کیسے مل گئی؟ وزیر اعلی سندھ بھی یہ زمین کیسے الاٹ کرسکتا ہے؟ کیا وزیر اعلیٰ سندھ کو یہ زمین الاٹ کرنے کا اختیار تھا؟

جسٹس سید حسن اظہر رضوی نے ریمارکس دیئے کہ پہلے آپ مطمئن کریں، یہ زمین آپ کو قانونی الاٹ ہوئی۔ عدالت نے درخواست کے قابل سماعت ہونے پر دلائل طلب کر لیے۔
 

samisam

Chief Minister (5k+ posts)
بندر بانٹ کی تمام جائیدادیں اور زمینیں قومی ملکیت میں لی جائیں