خبریں

معاشرتی مسائل

Threads
0
Messages
0
Threads
0
Messages
0
None

طنز و مزاح

Threads
0
Messages
0
Threads
0
Messages
0
None
اڈیالہ جیل میں قید سابق وزیراعظم اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی عمران خان نے پارٹی کی کور کمیٹی کی تشکیل نو کا فیصلہ کیا ہے۔ انہوں نے ان تمام ارکان کی رکنیت معطل کرنے کی ہدایت کی ہے جو پارٹی کے بیانیے کو مکمل طور پر آگے بڑھانے سے قاصر ہیں یا سوشل میڈیا اور مین اسٹریم میڈیا پر اس کا دفاع نہیں کر رہے۔ ذرائع کے مطابق عمران خان نے وکلا سے ملاقات کے دوران کور کمیٹی کے غیر فعال ارکان کے حوالے سے سخت موقف اپنایا اور کہا کہ جو ارکان ان کے ٹوئٹس کو ری ٹوئٹ نہیں کرتے یا پارٹی کے بیانیے کا بوجھ نہیں اٹھا سکتے، ان کی کور کمیٹی کی رکنیت ختم کردی جائے۔ ذرائع کے مطابق عمران خان کو بتایا گیا کہ کور کمیٹی میں صرف دو درجن کے قریب ارکان ہی بانی چیئرمین کے اکاؤنٹ سے کی گئی ٹوئٹس کو ری ٹوئٹ کرتے ہیں یا میڈیا پر ان کے مؤقف کا دفاع کرتے ہیں۔ اس صورتحال کے پیش نظر عمران خان نے کور کمیٹی کے ایسے ارکان کی فہرست تیار کرنے کی ہدایت کی ہے جو پارٹی بیانیے کی مکمل حمایت نہیں کر رہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ ان ارکان کو کور کمیٹی گروپ سے نکال دیا جائے اور ان کی جگہ نئے اور متحرک افراد کو شامل کیا جائے جو پارٹی کے مؤقف کو کھل کر بیان کر سکیں۔ عمران خان نے اس کے ساتھ ساتھ خیبرپختونخوا کے وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور کو آئی جی خیبرپختونخوا کے تبادلے کے معاملے پر وفاق سے سخت مؤقف اپنانے کی ہدایت بھی کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ 18ویں ترمیم کے بعد آئی جی کی تعیناتی صوبائی حکومت کا اختیار ہے اور اگر وفاق وزیراعلیٰ کی سفارشات کو نظر انداز کر رہا ہے تو صوبائی حکومت کو بھی وفاق کے ساتھ تعاون ختم کرنے پر غور کرنا چاہیے۔ ذرائع کے مطابق عمران خان نے 8 فروری کو ہونے والے احتجاج خصوصاً پنجاب میں ہونے والے مظاہروں کی رپورٹ بھی طلب کر لی ہے۔ اس رپورٹ کی روشنی میں پنجاب کی قیادت کے حوالے سے اہم فیصلے کیے جانے کا امکان ہے۔ یہ فیصلہ ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب پی ٹی آئی قیادت شدید دباؤ کا شکار ہے اور پارٹی کے کئی سینئر رہنما یا تو خاموش ہیں یا کھل کر پارٹی بیانیے کی حمایت نہیں کر رہے۔ عمران خان کا یہ فیصلہ پارٹی کے اندر مزید تبدیلیوں کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتا ہے، جس سے آئندہ کی سیاسی حکمت عملی میں بڑی تبدیلیاں دیکھنے کو مل سکتی ہیں۔
وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات عطااللہ تارڑ نے کہا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کا یوم سیاہ بری طرح ناکام ہوگیا، اور ایک شخص بھی سڑکوں پر نہیں نکلا۔ لاہور میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے عطااللہ تارڑ نے کہا کہ خیبرپختونخوا میں یوم سیاہ منانے کا مقصد کیا تھا؟ کیا یہ مہنگائی میں کمی کے خلاف تھا یا اسٹاک ایکسچینج میں بہتری پر احتجاج تھا؟ انہوں نے سوال کیا کہ آیا یہ احتجاج خیبرپختونخوا حکومت کی پالیسیوں کے خلاف تھا یا کسی اور ایجنڈے کے تحت کیا گیا۔ انہوں نے طنزیہ انداز میں کہا کہ پی ٹی آئی کا یوم سیاہ اس قدر غیر مؤثر تھا کہ میں نے ایک یونین کونسل میں جلسہ کیا، جہاں جتنی کرسیاں رکھی گئی تھیں، اتنے لوگ بھی پی ٹی آئی اپنے احتجاج میں جمع نہ کر سکی۔ بعد ازاں، مسلم لیگ (ن) کے مرکزی دفتر میں پارٹی کے وفات پانے والے کارکنان کی دعائیہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے عطااللہ تارڑ نے کہا کہ اگر کارکنان ہماری قوت نہ بنتے تو ہماری پہچان بھی نہ ہوتی۔ انہوں نے کہا کہ یہ ہمارے لیے غم کی گھڑی ہے کیونکہ عشروں تک پارٹی کی خدمت کرنے والے کارکنان ہم سے جدا ہو گئے۔ انہوں نے مزید کہا کہ کارکنوں کی محنت اور قربانیوں سے ہی سیاسی جماعتیں زندہ رہتی ہیں۔ اگر کارکنان آواز نہ اٹھاتے تو خزاں کے بعد بہار نہ آتی۔ پارٹی کے لیے خون پسینہ بہانے والے کارکنوں اور ان کے خاندانوں کا خیال رکھنا قیادت کی ذمہ داری ہے۔ عطااللہ تارڑ نے تجویز دی کہ کارکنان کی فلاح و بہبود کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی جائے، جس میں کسی ایم این اے یا ایم پی اے کو شامل نہ کیا جائے اور جو صرف کارکنان کی خدمت کے لیے ڈیٹا اکٹھا کرے۔ دعائیہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے سابق وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ آج جو قدم اٹھایا گیا وہ انتہائی اہم ہے۔ سیاسی جماعتوں کو اپنے ان کارکنوں کو یاد رکھنا چاہیے جنہوں نے اپنی زندگیاں پارٹی کے لیے وقف کر دیں۔ انہوں نے کہا کہ کارکنان کسی بھی سیاسی تحریک کی بنیاد ہوتے ہیں، اور اگر ان کی قربانیوں کو نظر انداز کیا جائے تو جماعتیں کمزور ہو جاتی ہیں۔ سعد رفیق نے اس عزم کا اظہار کیا کہ مسلم لیگ (ن) کارکنان کی فلاح و بہبود کے لیے ہر ممکن اقدامات کرے گی۔
۔تحریک انصاف کے پرچم بھارت کے زیر تسلط کشمیر میں جا پہنچے، کشمیر میں پی ٹی آئی کے جھنڈے دیکھ کر بھارتی سیکیورٹی فورسز میں ہڑبڑاہٹ 8 فروری 2025 کو یوم سیاہ کے موقع پر تحریک انصاف کی جانب سے غباروں کے ساتھ باندھ کر فضا میں چھوڑے گئے پارٹی پرچم مقبوضہ جموں و کشمیر کے ضلع ڈوڈا کے گاندو سب ڈویژن کے گورکھرا گاؤں میں جا پہنچے، جس نے بھارتی سکیورٹی فورسز میں شدید پریشانی پیدا کر دی۔ اطلاعات کے مطابق، سابق پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کی سیاسی جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کا پرچم اور غبارے درخت پر لٹکتے ہوئے پائے گئے۔ اس پرچم اور غباروں کی موجودگی نے نہ صرف مقامی افراد بلکہ بھارتی سکیورٹی اداروں کو بھی غیر معمولی طور پر متوجہ کیا۔ یہ پرچم اور غبارے گورکھرا گاؤں کے ایک اخروٹ کے درخت سے لٹک رہے تھے، جس کے بعد بھارتی سکیورٹی فورسز نے فوری طور پر ان پرچموں اور غباروں کو درخت سے اتار کر مقامی پولیس اسٹیشن منتقل کر دیا۔ بھارتی پولیس کے مطابق، ان اشیاء کو فوری طور پر قبضے میں لیا گیا اور رپورٹ بھی درج کی گئی ہے۔ صحافی غلام عباس شاہ نے بھارتی فورسز کی جانب سے پرچموں کو درخت سے اتارنے کی ویڈیو شیئر کرتے ہو لکھا کہ 'بھارتی سکیورٹی فورسز میں کشمیر میں پی ٹی آئی کا پرچم دیکھ کر ہلچل مچ گئی۔ سابق پاکستانی وزیرِ اعظم عمران خان کی پارٹی پی ٹی آئی کا پرچم اور کچھ غبارے گورکھرا گاؤں، گاندو سب ڈویژن، ڈوڈا ضلع میں ایک درخت سے لٹکتے ہوئے پائے گئے۔ بھارتی سکیورٹی فورسز نے انہیں درخت سے اُتار کر مقامی پولیس اسٹیشن منتقل کر دیا۔ پولیس نے رپورٹ درج کر لی ہے اور حکام تحقیقات کر رہے ہیں۔ اشوک سوائن نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان کی پارٹی پی ٹی آئی کا پرچم کشمیر کے بھارتی حصے میں لہرا رہا ہے - یہ پرچم بھارتی سکیورٹی افسران کو اتنا ہی ڈرا رہا ہے جتنا کہ آج کل پاکستانی فوج کے جنرلز کو۔
جوڈیشل کمیشن کے رکن اور سینیٹر علی ظفر نے چیف جسٹس پاکستان یحییٰ آفریدی کو خط لکھ کر جوڈیشل کمیشن کے اجلاس کو ملتوی کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ خط میں سینیٹر علی ظفر نے مؤقف اختیار کیا کہ جب تک اسلام آباد ہائی کورٹ میں ججز کی سنیارٹی کے معاملے کو حل نہیں کیا جاتا، اجلاس منعقد کرنا مناسب نہیں ہوگا۔ ان کے مطابق، حالیہ ججز کے تبادلے کی وجہ سے ہائی کورٹ کی سنیارٹی لسٹ میں تبدیلی آئی ہے، جو عدالتی نظام پر اثر انداز ہو سکتی ہے۔ سینیٹر علی ظفر نے اپنے خط میں اس خدشے کا اظہار کیا کہ ججز کے یہ تبادلے ایک خاص تناظر میں کیے گئے ہیں، جس سے یہ تاثر پیدا ہو رہا ہے کہ یہ انتظام بانی پی ٹی آئی اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کی اپیلوں کے لیے ایک خاص بندوبست کا حصہ ہو سکتا ہے۔ انہوں نے تجویز دی کہ جوڈیشل کمیشن کو اس وقت تک اجلاس ملتوی کر دینا چاہیے جب تک ججز کی سنیارٹی کا معاملہ مکمل طور پر واضح نہیں ہو جاتا۔ تاہم، اگر اجلاس منعقد کرنا ناگزیر ہو تو حالیہ تبادلہ شدہ ججز کو زیر بحث نہ لایا جائے تاکہ کسی بھی ممکنہ تنازع سے بچا جا سکے۔
عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے پاکستان میں ججز کی تقرری، عدلیہ کی سالمیت، گورننس اور انسداد بدعنوانی سے متعلق ایک جامع جائزے کے لیے خصوصی مشن بھیج دیا ہے۔ یہ اپنی نوعیت کا پہلا تفصیلی جائزہ ہے، جس کے تحت مشن نے 8 فروری سے اپنا کام شروع کر دیا اور 14 فروری تک اپنی رپورٹ مکمل کرے گا۔ شہباز رانا کی خبر کے مطابق آئی ایم ایف مشن پاکستان میں اپنے قیام کے دوران کم از کم 19 حکومتی وزارتوں، محکموں اور ریاستی اداروں سے ملاقات کرے گا، جن میں جوڈیشل کمیشن آف پاکستان اور سپریم کورٹ آف پاکستان بھی شامل ہیں۔ ذرائع کے مطابق، مشن کا بنیادی فوکس قانون کی حکمرانی، انسداد بدعنوانی، مالیاتی نگرانی اور ریاستی گورننس میں اصلاحات پر ہے۔ یہ مشن ایک ایسے وقت میں آیا ہے جب اسلام آباد ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے ججز نے اعلیٰ عدلیہ میں ججز کی تقرریوں کے طریقہ کار پر شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ ذرائع کے مطابق، مشن اگلے ہفتے جوڈیشل کمیشن کے ساتھ میٹنگ کرے گا، جہاں ججز کی تقرری کے عمل پر تفصیلی گفتگو ہوگی۔ آئی ایم ایف کا مشن قومی احتساب بیورو (نیب) کے ساتھ مل کر پاکستان میں انسداد بدعنوانی کی پالیسیوں، بدعنوانی کے اثرات، قانون کے نفاذ، منی لانڈرنگ کی تحقیقات اور پراسیکیوشن کے معاملات پر تبادلہ خیال کرے گا۔ عالمی مالیاتی ادارے نے اس بات پر بھی زور دیا ہے کہ پاکستان میں مشکل کاروباری ماحول، کمزور گورننس اور ریاستی مداخلت سرمایہ کاری کی راہ میں بڑی رکاوٹیں ہیں۔ اس حوالے سے، آئی ایم ایف مشن مالیاتی مانیٹرنگ یونٹ (FMU) کے ساتھ بھی ملاقات کرے گا تاکہ مشتبہ مالیاتی لین دین، مالیاتی انٹیلی جنس، اور وسائل کی دستیابی جیسے عوامل کا جائزہ لیا جا سکے۔ ذرائع کے مطابق، وزارت قانون و انصاف کے ساتھ بھی ایک اہم اجلاس ہوگا، جس میں قانون کی حکمرانی، عدلیہ کی آزادی، جائیداد کے حقوق کے تحفظ، اور معاہدوں کے نفاذ کے حوالے سے درکار قانونی اصلاحات کا جائزہ لیا جائے گا۔ آئی ایم ایف مشن اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے ساتھ بھی متعدد ملاقاتیں کرے گا، جن میں سے کچھ پہلے ہی ہو چکی ہیں۔ ان ملاقاتوں میں بینکاری گورننس، انسداد بدعنوانی سے متعلق چیلنجز، اور اصلاحات کی ترجیحات پر تبادلہ خیال کیا جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ، مشن اسلامی بینکاری، انسداد منی لانڈرنگ، دہشت گردی کی مالی معاونت، اور بینکاری ادائیگی کے نظام پر بھی بریفنگ لے گا۔ ذرائع کے مطابق، بینکنگ سیکٹر میں قانونی تحفظ، نگران فیصلہ سازی، اور سپروائزری سسٹم کے بارے میں بھی تفصیلی مشاورت کی جائے گی۔ آئی ایم ایف مشن فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے ساتھ بھی ملاقات کرے گا، جہاں ٹیکس پالیسیوں، ان کے نفاذ اور گورننس سے متعلق ممکنہ خطرات پر گفتگو ہوگی۔ اسی طرح، فیڈرل لینڈ کمیشن کے ساتھ بھی میٹنگ ہوگی، جس میں پاکستان میں زمینوں کے انتظام و انصرام میں گورننس کے معاملات کا تجزیہ کیا جائے گا۔ مزید برآں، مشن آڈیٹر جنرل آف پاکستان اور اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کے ساتھ بھی مشاورت کرے گا تاکہ بیوروکریٹس کے اثاثہ جات کے اعلان کے نظام اور انسداد بدعنوانی کے اقدامات کا جائزہ لیا جا سکے۔ آئی ایم ایف وزارت خزانہ کے ساتھ بجٹ سازی اور اس کے نفاذ کے موجودہ طریقہ کار کا بھی جائزہ لے گا، جبکہ وزارت اقتصادی امور کے ساتھ بیرونی قرضوں کے اعداد و شمار، قرضوں کے انتظام، اور ان کی شفافیت پر بھی بات چیت کی جائے گی۔ مشن اپنی تحقیق مکمل کرنے کے بعد جولائی 2025 میں اپنی تفصیلی رپورٹ شائع کرے گا۔ 7 بلین ڈالر کے معاہدے کے تحت پاکستان اس تفصیلی گورننس رپورٹ کو عام کرنے کا پابند ہے۔ شہباز رانا نے اپنے ایکس پیغام پر کہا کہ سب کی معلومات کے لیے، آئی ایم ایف کا موجودہ مشن گورننس اور کرپشن کے تجزیے (GCD) کا جائزہ لینے کے لیے آیا ہے، جیسا کہ میری خبر میں بھی لکھا ہے۔ براہ کرم اسے ریویو مشن کے ساتھ نہ ملائیں، جو ایک الگ مشن ہے اور بعد میں آئے گا۔ کچھ نیوز چینلز دونوں کو آپس میں ملا رہے ہیں۔
اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو نے فلسطین کو اسرائیل کی سلامتی کے لیے خطرہ قرار دیتے ہوئے ایک متنازعہ تجویز پیش کی ہے کہ سعودی عرب کو اپنے ملک کے اندر فلسطینی ریاست بنانی چاہیے۔ خبرایجنسی انادولو کے مطابق نیتن یاہو نے اسرائیلی نیوز چینل 14 کو دیے گئے انٹرویو میں کہا کہ سعودی حکومت فلسطینیوں کے لیے اپنی سرزمین پر ایک ریاست قائم کر سکتی ہے، کیونکہ ان کے پاس کافی زمین ہے۔ ان سے سوال کیا گیا کہ آیا سعودی عرب سے تعلقات کے لیے فلسطینی ریاست کا قیام ضروری ہے، تو انہوں نے اس امکان کو مکمل طور پر رد کرتے ہوئے کہا کہ فلسطینی ریاست اسرائیل کی قومی سلامتی کے لیے خطرہ ہے۔ نیتن یاہو نے مزید کہا کہ "7 اکتوبر کے بعد فلسطینی ریاست کا کوئی تصور نہیں بنتا۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ وہ کیا تھا؟ ایک فلسطینی ریاست تھی، جسے غزہ کہا جاتا تھا، جہاں حماس کی حکومت قائم تھی۔ نتیجہ ہم سب کے سامنے ہے۔" انہوں نے دوبارہ زور دے کر کہا کہ فلسطینی ریاست کا قیام اسرائیل کے لیے کسی طور قابل قبول نہیں۔ سعودی عرب کی وزارت خارجہ نے بینجمن نیتن یاہو کے اس بیان کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے واضح کیا کہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات اسی وقت ممکن ہوں گے جب فلسطینی ریاست کا قیام عمل میں آئے گا۔ سعودی حکومت نے اس بات کا اعادہ کیا کہ وہ ہمیشہ فلسطینی عوام کے حقوق اور ایک خودمختار ریاست کے قیام کی حمایت کرتی رہے گی۔ نیتن یاہو نے سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ "اسرائیل اور سعودی عرب کے درمیان امن ممکن ہی نہیں، بلکہ یہ جلد ہی حقیقت بننے جا رہا ہے۔" تاہم سعودی عرب کی جانب سے ان کے بیان کو سختی سے مسترد کیے جانے کے بعد اسرائیل کے اس دعوے پر سوالات اٹھنے لگے ہیں۔ دوسری جانب، مصر نے بھی اسرائیلی وزیراعظم کے بیان کی شدید مذمت کی ہے اور اسے غیر ذمہ دارانہ قرار دیا ہے۔ مصری وزارت خارجہ کے جاری کردہ بیان میں کہا گیا کہ نیتن یاہو کی یہ تجویز سعودی عرب کی خودمختاری پر براہ راست حملہ ہے اور مصر سعودی عرب کی سلامتی کو اپنی "سرخ لکیر" سمجھتا ہے۔ یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب نیتن یاہو امریکہ کے دورے پر ہیں۔ رپورٹ کے مطابق، یہ کسی بھی غیر ملکی رہنما کا سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں پہلا سرکاری دورہ ہے۔ اس دوران نیتن یاہو نے ٹرمپ کے ساتھ ایک مشترکہ پریس کانفرنس بھی کی، جہاں ٹرمپ نے غزہ پر اسرائیلی قبضے کے حق میں بیان دیا تھا۔
بانی پی ٹی آئی عمران خان کے اعلان پر آج یومِ سیاہ منایا جا رہا ہے، اس حوالے سے مرکزی جلسہ صوابی میں ہو رہا ہے، جبکہ قیادت کی جانب سے دیگر شہروں میں بھی احتجاج اور ریلیاں نکالنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ جس پر حکومتی ادارے حرکت میں آ گئے ہیں اور پکڑ دھکڑ کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔ ملتان میں پاکستان تحریک انصاف کے احتجاج کے دوران شاہ محمود قریشی کی بیٹی مہر بانو قریشی کو گرفتار کر لیا گیا۔ پولیس نے جاوید ہاشمی کے داماد زاہد بہار ہاشمی اور پارٹی ٹکٹ ہولڈر دلیر مہار کو بھی حراست میں لے لیا۔ پولیس کے مطابق پی ٹی آئی رہنماؤں کو پل چھٹہ مخدوم رشید سے اس وقت گرفتار کیا گیا جب وہ احتجاجی ریلی کی قیادت کر رہے تھے۔ اسلام آباد میں تحریک انصاف کے یوم سیاہ کے اعلان کے بعد پولیس نے سیکیورٹی سخت کر دی ہے۔ سری نگر ہائی وے پر تین خصوصی ناکے قائم کیے گئے ہیں، جبکہ داخلی راستوں پر پولیس کی بھاری نفری تعینات ہے۔ پولیس کی جانب سے گاڑیوں کی سخت چیکنگ کی جا رہی ہے اور جڑواں شہروں سے صوابی جانے والے قافلوں کے خلاف کریک ڈاؤن کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ مظفرآباد میں آزادی چوک پر پی ٹی آئی کارکنوں نے احتجاج کیا، تاہم پولیس نے مظاہرین کو مظاہرہ کرنے سے روک دیا اور متعدد کارکنوں کو گرفتار کر لیا۔ گرفتار ہونے والوں میں پی ٹی آئی رہنما خواجہ فاروق اور سابق وزیر محمد حنیف اعوان بھی شامل ہیں۔ ملک بھر میں پی ٹی آئی کے کارکنوں کی گرفتاریوں کا سلسلہ جاری ہے، جبکہ پارٹی رہنماؤں نے ان گرفتاریوں کی مذمت کرتے ہوئے احتجاج مزید تیز کرنے کا اعلان کیا ہے۔ آزاد کشمیر میں باغ انتظامیہ کی طرف سے دفعہ 144 کی پابندی کے باوجود پی ٹی آئی کے کارکنوں نے یوم سیاہ مناتے ہوئے پریس کلب کے سامنے احتجاجی مظاہرہ کیا۔ مظاہرین نے بانی پی ٹی آئی کی رہائی اور الیکشن میں دھاندلی کے خلاف نعرے بازی کی۔ مقررین نے مظاہرے سے خطاب کرتے ہوئے حکومت پاکستان پر تنقید کی اور کہا کہ حکومت نے آئین اور قانون کو پس پشت ڈال کر پی ٹی آئی کو انتقام کا نشانہ بنا رکھا ہے، انہیں فوری رہا کیا جائے۔ مقررین نے آزاد کشمیر میں پی ٹی آئی کے رہنماؤں اور کارکنوں کی گرفتاری کی بھی مذمت کی۔ خیال رہے کہ باغ انتظامیہ کی طرف سے پی ٹی آئی کے احتجاج جلوس اور جلوسوں پر تین دن کی پابندی عائد کر رکھی ہے، اس کے باوجود پی ٹی آئی کے کارکنوں نے اس پابندی کو توڑ کر پریس کلب کے باہر جمع ہو کر اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا۔
اسلام آباد: وزیراعظم معاونت پیکج کے تحت دوران سروس انتقال کرنے والے سرکاری ملازم کے ایک فیملی ممبر کو سرکاری ملازمت کی دی جانے والی سہولت واپس لے لی گئی ہے۔ اس سلسلے میں اسٹیبلشمنٹ ڈویژن نے با ضابطہ آفس میمو رنڈم جاری کر دیا، جس میں تمام وزارتوں اور ڈویژنوں کو نئے فیصلے پر عمل درآمد کی ہدایت کی گئی ہے۔ نوٹیفکیشن میں کہا گیا ہے کہ یہ سہولت سپریم کورٹ کے 18 اکتوبر 2024 کے فیصلے کی روشنی میں واپس لی گئی ہے اور فیصلے کا اطلاق سپریم کورٹ کے فیصلے کی تاریخ سے ہوگا۔ دوران سروس انتقال کی صورت میں سول سرونٹس کو وزیراعظم معاونت پیکج کے تحت حاصل دیگر تمام مراعات اور سہولتیں بدستور جاری رہیں گی۔ اسٹیبلشمنٹ ڈویژن نے وضاحت کی ہے کہ قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں کے وہ شہدا جو دہشت گردی کے واقعات میں شہید ہوتے ہیں، ان کے ورثا پر اس فیصلے کا اطلاق نہیں ہوگا، جب کہ اس فیصلے کا اطلاق سپریم کورٹ کے فیصلے سے پہلے کی گئی تقرریوں پر بھی نہیں ہوگا۔
اسلام آباد: الیکشن کمیشن کے ترجمان نے ایک اہم بیان جاری کرتے ہوئے پتن کے نمائندے کے انٹرویو اور 8 فروری 2024ء کی پریس ریلیز کو "سراسر بے بنیاد اور حقائق کے منافی" قرار دیا ہے۔ ترجمان کے مطابق، پتن اور اس کے عہدیداران ملکی اداروں کو بدنام کرنے کے لیے ایک منظم سازش کا حصہ ہیں۔ انہوں نے وضاحت کی کہ ریٹرننگ افسران سے موصول ہونے والے تمام فارم 46، 45 اور 47 کو بغیر کسی ردوبدل کے الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ پر شائع کیا گیا، اور یہ فارم آج بھی ویب سائٹ پر موجود ہیں۔ ترجمان نے مزید کہا کہ متاثرہ فریقین نے قانون کے مطابق الیکشن پٹیشنز ٹریبونلز میں دائر کیں، جن کی سماعت جاری ہے اور کچھ کیسز میں فیصلے بھی ہو چکے ہیں۔ ووٹرز کا ٹرن آؤٹ الیکشن کمیشن کی سالانہ اور پوسٹ الیکشن رپورٹ میں شامل ہے، جو قانون کے مطابق شائع کی جا رہی ہیں۔ ترجمان کے مطابق، خواتین اور غیر مسلموں کی مخصوص نشستوں کے معاملے پر تبصرہ مناسب نہیں ہوگا کیونکہ یہ معاملہ عدالت میں زیر سماعت ہے۔ الیکشن کمیشن اس معاملے پر آئین اور قانون کے مطابق فیصلہ کرے گا۔ ترجمان نے مزید کہا کہ اگر کسی کے پاس بے ضابطگیوں کے شواہد موجود ہیں تو انہیں متعلقہ امیدواروں اور متاثرہ فریقین کے حوالے کیا جائے تاکہ وہ ٹربیونلز کے سامنے پیش کر سکیں اور قانونی کارروائی عمل میں لائی جا سکے۔ بیان میں مزید کہا گیا کہ کسی بھی رپورٹ کی کوئی اہمیت نہیں جب تک کہ اس سلسلے میں الیکشن کمیشن کا موقف نہ لیا جائے۔ رپورٹ شائع کرنے سے پہلے الیکشن کمیشن کا مؤقف جاننا ضروری تھا، مگر پتن کی رپورٹ ادارے کے مؤقف کے بغیر شائع کی گئی، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ محض ایک بے بنیاد اور من گھڑت پروپیگنڈے کا حصہ ہے۔ ترجمان نے واضح کیا کہ الیکشن کمیشن کسی بھی دباؤ میں نہیں آئے گا اور اپنے فرائض آئین و قانون کے مطابق سرانجام دیتا رہے گا۔
ملک میں بیروزگاری کی بڑھتی ہوئی شرح ایک سنگین مسئلہ بن چکی ہے، جس نے عوام کو شدید معاشی مشکلات میں مبتلا کر دیا ہے۔ اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ بیروزگاری کی بنیادی وجہ کاروباری سرگرمیوں میں کمی اور صنعتوں کی بندش ہے، جو ملکی معیشت پر منفی اثرات ڈال رہی ہے۔ ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق، پاکستان میں بیروزگاری کی شرح 7 فیصد تک پہنچ چکی ہے، جو کہ بھارت اور بنگلا دیش کے مقابلے میں زیادہ ہے۔ پلاننگ کمیشن کی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ ملک میں بیروزگاری کے خاتمے کے لیے سالانہ کم از کم 15 لاکھ نئی ملازمتوں کی ضرورت ہے، تاہم موجودہ معاشی حالات میں اس ہدف کا حصول مشکل دکھائی دیتا ہے۔ ماہرین کے مطابق مہنگی بجلی اور گیس، بھاری ٹیکسوں اور دیگر اقتصادی مسائل کی وجہ سے پیداواری لاگت میں اضافہ ہوا ہے، جس کے باعث درجنوں صنعتیں بند ہوچکی ہیں اور لاکھوں افراد بےروزگار ہوگئے ہیں۔ کراچی سمیت ملک کے مختلف شہروں میں مزدور طبقہ کام نہ ملنے کی شکایات کرتا نظر آتا ہے۔ اقتصادی ماہر اسامہ رضوی کے مطابق بڑی صنعتوں کی پیداوار میں نمایاں کمی آئی ہے، ٹیکسٹائل کی درجنوں ملز بند ہوچکی ہیں اور 45 لاکھ نوجوان روزگار کی تلاش میں سرگرداں ہیں۔ انہوں نے اس امر پر زور دیا کہ ملکی معیشت کی بحالی کے لیے فوری اقدامات کیے جائیں تاکہ کاروباری سرگرمیاں بحال ہوسکیں اور روزگار کے مواقع پیدا ہوں۔ صنعت کار بھی موجودہ صورتحال پر سخت پریشان ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر حکومت نے جلد اقدامات نہ کیے تو صنعتی بحران مزید سنگین ہو سکتا ہے، جس کے نتیجے میں بےروزگاری کی شرح میں مزید اضافہ ہوگا اور معیشت کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ بیروزگاری کے خاتمے کے لیے حکومت کو سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال کرنا ہوگا، توانائی بحران پر قابو پانا ہوگا اور کاروبار دوست پالیسیاں متعارف کرانی ہوں گی تاکہ معیشت کو استحکام مل سکے اور لاکھوں افراد کو روزگار فراہم کیا جا سکے۔
سپریم کورٹ کے ججز جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس اطہر من اللہ، اور جسٹس عائشہ ملک کا چیف جسٹس آف پاکستان کو ایک مشترکہ خط ، جوڈیشل کمیشن آف پاکستان (جے سی پی) کے اجلاس کو مؤخر کرنے کی سفارش، خط میں ججز نے بنچ کی تشکیل، 26ویں آئینی ترمیم کیس، اور ججز کی منتقلی جیسے اہم امور پر سوالات اٹھا دیے۔ خط میں ججز نے بنچ کی تشکیل کے عمل پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس میں شفافیت اور معروضیت کی کمی ہے، جو عدلیہ کی ساکھ پر منفی اثر ڈال سکتی ہے۔ انہوں نے 26ویں آئینی ترمیم کیس کی سماعت کے لیے بنچ کی تشکیل پر بھی سوالات اٹھائے ہیں، اور اس بات پر زور دیا ہے کہ اس معاملے کی حساسیت کے پیش نظر بنچ کی تشکیل میں تمام متعلقہ ججز کی مشاورت ضروری ہے، 26ویں ترمیم پر فل کورٹ بنانے کا مطالبہ بھی کر دیا۔ مزید برآں، ججز نے ججز کی منتقلی کے عمل پر بھی تحفظات کا اظہار کیا ہے، اور اس بات کی نشاندہی کی ہے کہ منتقلی کے فیصلوں میں شفافیت اور معروضیت کو یقینی بنایا جانا چاہیے تاکہ عدلیہ کی آزادی اور خودمختاری برقرار رہے۔ خط میں ججز نے جوڈیشل کمیشن کے اجلاس کو مؤخر کرنے کی سفارش کی ہے تاکہ ان اہم امور پر تفصیلی غور و خوض کیا جا سکے اور عدلیہ کے اندرونی معاملات میں شفافیت اور معروضیت کو یقینی بنایا جا سکے۔ خط میں نشاندہی کی گئی ہے کہ آئینی ترمیم کا کیس ایک آئینی بینچ سن رہا ہے، جو کہ خود اسی ترمیم کے نتیجے میں تشکیل دیا گیا ہے۔ ججز نے اس معاملے پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے مؤقف اختیار کیا ہے کہ مقدمے کو فوری طور پر فل کورٹ کے سامنے مقرر کیا جائے تاکہ عدالتی کارروائی پر عوام کا اعتماد برقرار رہے۔ خط میں لکھا گیا ہے کہ اس سے قبل بھی ججز نے آئینی ترمیم کا کیس فل کورٹ میں مقرر کرنے کا مطالبہ کیا تھا، مگر یہ مطالبہ تسلیم نہیں کیا گیا۔ مزید برآں، آئینی بینچ نے بھی یہ مقدمہ طویل تاخیر کے بعد سماعت کے لیے مقرر کیا، جس سے عدالتی عمل کی ساکھ پر سوالات اٹھے۔ خط میں اس بات پر بھی اعتراض کیا گیا ہے کہ آئینی ترمیم کیس کی آئندہ سماعت سے پہلے ہی نئے ججز کی تعیناتی کے لیے جوڈیشل کمیشن کا اجلاس جلد بازی میں بلا لیا گیا۔ ججز نے نشاندہی کی کہ آئینی ترمیم کا کیس ابھی زیر سماعت ہے، اور اگر ترمیم کے تحت تعینات ہونے والے ججز اس بینچ کا حصہ بن جاتے ہیں تو اس سے عدالتی غیر جانبداری پر سنگین سوالات کھڑے ہوں گے۔ خط میں کہا گیا ہے کہ اگر آئینی بینچ فل کورٹ کی درخواستیں منظور کر بھی لیتا ہے تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس فل کورٹ کی تشکیل کون کرے گا؟ کیا اس میں وہی نئے ججز شامل ہوں گے جو آئینی ترمیم کے تحت تعینات کیے جا رہے ہیں؟ اور اگر یہ نئے ججز شامل نہ ہوئے تو پھر یہ اعتراض سامنے آئے گا کہ تشکیل کردہ بینچ درحقیقت فل کورٹ نہیں ہے۔ مزید برآں، اگر موجودہ آئینی بینچ ہی کیس کی سماعت جاری رکھتا ہے تو عوامی اعتماد پہلے ہی اس پر متزلزل ہے۔ ججز نے متنبہ کیا ہے کہ موجودہ حالات میں عوام کو "کورٹ پیکنگ" کا تاثر مل رہا ہے، جو عدلیہ کی ساکھ اور غیر جانبداری کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔ خط میں تجویز دی گئی ہے کہ فل کورٹ کی تشکیل اور آئینی ترمیم کیس کے فیصلے سے پہلے نئے ججز کی تعیناتی کا عمل روک دیا جائے۔ ججز نے زور دیا کہ عدالت کی غیر جانبداری اور شفافیت کو یقینی بنانے کے لیے ضروری ہے کہ جوڈیشل کمیشن کا اجلاس مؤخر کیا جائے اور آئینی ترمیم کیس کو فل کورٹ کے سامنے رکھا جائے تاکہ عوام کا اعتماد بحال رہے۔ چار ججز نے حالیہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں ججز کے تبادلوں پر اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آئین کے مطابق ججز کا تبادلہ عارضی طور پر ہو سکتا ہے، مگر یہ مستقل نہیں ہو سکتا۔ ججز کا تبادلہ صرف مقررہ مدت کے لیے ممکن ہے، غیر معینہ مدت کے لیے نہیں۔ خط میں مزید وضاحت دی گئی ہے کہ مدت مقرر نہ ہونے کی صورت میں تبادلے کا حکم کسی بھی وقت واپس لیا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ، تبادلہ اسی صورت میں ممکن ہے جب ہائی کورٹ میں ججز کی تعداد پوری ہو، اور تبادلے کے بعد ججز کو آئینی طور پر حلف اٹھانا ضروری ہے۔ یہ حلف صرف اسی ہائی کورٹ کے لیے ہو سکتا ہے جس کے لیے ججز کو تعینات کیا گیا ہو۔ خط میں اس بات کی بھی نشاندہی کی گئی ہے کہ چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے آئینی نکات کو نظر انداز کرتے ہوئے از خود سنیارٹی کا تعین کر لیا، جس کے نتیجے میں لاہور ہائی کورٹ کے سنیارٹی میں پندرہے نمبر پر موجود جج کو اسلام آباد ہائی کورٹ کا سینئر ترین جج بنا دیا گیا 4 ججز نے اپنے خط کے پیراگراف نمبر 6 میں چیف جسٹس یحییٰ آفریدی پر سنگین سوالات اٹھاتے ہوئے کہا کہ "ہم یہ سوال کرتے ہیں کہ عدالت کو ایسی صورت حال میں کیوں ڈالا جا رہا ہے؟ کس کے ایجنڈے اور مفادات کی تکمیل کے لیے عدالت کو اس طرح بے توقیری اور شاید (ہمیں افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے) تمسخر کا سامنا کرنے پر مجبور کیا جا رہا ہے؟ عدالت کو اس قابلِ اجتناب مخمصے میں کیوں ڈالا جا رہا ہے؟ کیا یہ ضروری نہیں کہ نئے ججوں کی شمولیت کے معاملے پر نظرثانی کی جائے اور فی الحال اسے ایک طرف رکھ دیا جائے؟یہ سوالات خود ہی اپنے جوابات دیتے ہیں۔" عدالت کو فل کورٹ کے اجلاس کے وقت اور اس کی تشکیل پر باریک بینی سے غور کرنا ہوگا تاکہ اس کی ساکھ اور وقار برقرار رہے، کیونکہ یہ صرف اعلیٰ ترین عدالتی ادارے کی نہیں بلکہ پورے قانونی نظام کی سالمیت کا معاملہ ہے۔ تاہم، اگر یہ اجلاس منعقد ہوتا ہے، تو اس سے ممکنہ طور پر ایسے کسی بھی موقع کو ختم کر دیا جائے گا۔ فل کورٹ کی جانب سے دیا گیا کوئی بھی فیصلہ (اگر یہ اجلاس نئے ججز کی تقرری کے بعد ہوتا ہے) شاید عوامی اعتماد اور بھروسہ حاصل نہ کر سکے۔ موجودہ صورتحال میں واحد مناسب حل اور راستہ یہ ہے کہ اجلاس کو مؤخر کر دیا جائے۔"
پتن کے سربراہ سرور باری کا کہنا ہے کہ حکومت کو چلتے رہنے دینے کا مطالبہ ایسے ہے جیسے کسی کے گھر چوری ہوئی ہو اور کوئی کہے کہ چوری کو تسلیم کرلیں اور مسروقہ سامان بھی چور خود استعمال کر لے۔ انہوں نے مزید کہا کہ نواز شریف کے حلقے میں 102 فیصد بھی ووٹ پڑا ہے۔ اسی پولنگ اسٹیشن پر صوبائی اسمبلی میں 41 فیصد ووٹ پڑا ہے۔ سرور باری کے مطابق آٹھ فروری کی رات تک دھاندلی کے جو طریقے استعمال کیے گئے وہ اپنے حق میں رزلٹس لینے کے لیے تھے۔ 9 فروری کے بعد 26 ویں آئینی ترمیم اور پیکا ایکٹ جیسے جو اقدامات کیے گئے وہ اس دھاندلی کو چھپانے کے لیے تھے۔پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ جس پارٹی کو ہرایا گیا اس نے مزاحمت کی۔ انہوں نے مزید کہا کہ کاش جب نواز شریف کو نکالا تھا وہ بھی یہی کرتے۔ 1988 سے 8 فروری تک ہارنے والی جماعتوں نے الزام تو لگایا لیکن کسی نے ایسی مزاحمت نہیں کی۔ اظہر صدیق ایڈوکیٹ نے کہا کہ حکومت کہتی ہےہم دھاندلی لے ثبوت نہیں ۔جب ہم عدالتوں کی اکھاڑ پچھاڑ کردیں گے جب ہم ٹربیونل اپنی مرضی کے لگا دیں گے جب ہم الیکشن کمیشن میں ایمپائر اپنی مرضی کے لگا دیں گے تو کون دھاندلی کی تحقیقات کرے گا؟ اظہر صدیق کاشف عباسی کا کہنا تھا کہ پتن نے 8 فروری کے انتخابات میں دھاندلی پر ایک رپورٹ جاری کی ہے،رپورٹ کا نام رکھا گیا "وار آن ووٹر" لکھا گیا کہ ووٹر کا ووٹ چوری کیا گیا اور اسے دلیری سے برقرار بھی رکھا گیا، دھاندلی کے بعد عدلیہ اور میڈیا کو زیر کیا گیا سوشل میڈیا کے خلاف کریک ڈاؤن کیا گیا۔
لاہور: تحریک انصاف کی جانب سے مینار پاکستان پر جلسے کی درخواست کے معاملے کی سماعت لاہور ہائی کورٹ میں ہوئی، جس میں چیف سیکرٹری طلب کیے جانے پر عدالت پہنچ گئے۔ 8 فروری کو مینار پاکستان پر پی ٹی آئی کے جلسے کی اجازت سے متعلق درخواست کی سماعت جسٹس فاروق حیدر نے کی۔ اس موقع پر پی ٹی آئی پنجاب کی چیف آرگنائزر عالیہ حمزہ عدالت کے روبرو پیش ہوئیں جب کہ ڈپٹی کمشنر لاہور نے عدالتی حکم پر جلسے کی اجازت سے متعلق رپورٹ پیش کی۔ ڈپٹی کمشنر کی رپورٹ میں عدالت کو بتایا گیا کہ 8فروری کو شہر میں کرکٹ میچ اور ہارس اینڈ کیٹل شو ہے۔ جلسے کی اجازت سے متعلق میٹنگز ابھی جاری ہیں۔ کل بھی اس حوالے سے میٹنگ بلائی ہے۔ عدالت نے استفسار کیا کہ ان کی جلسے کی درخواست کب موصول ہوئی تھی، جس پر ڈی سی نے بتایا کہ جلسے کے لیے 29 جنوری کو درخواست موصول ہوئی۔ عدالت نے پوچھا کہ کیا آپ کے قانون میں درج ہے کہ آپ کم سے کم کتنی مدت میں درخواست پر فیصلہ کریں گے؟، جس پر ڈپٹی کمشنر نے جواب دیا کہ قانون میں درخواست پر فیصلے کے لیے مدت کا ذکر نہیں ہے۔
اسلام آباد: پاکستان نے غزہ کے عوام کی منتقلی کے حوالے سے بات کو غیرمنصفانہ، تکلیف دہ اور تشویشناک قرار دیا ہے۔ دفتر خارجہ میں ہفتہ وار بریفنگ کے دوران، ترجمان دفتر خارجہ شفقت علی خان نے کہا کہ پاکستان فلسطینیوں کی خواہشات کے مطابق دو ریاستی حل کا حامی ہے، اور جو فلسطینی چاہتے ہیں، ہم اس کی مکمل حمایت کرتے ہیں۔ ترجمان نے غزہ کے عوام کی منتقلی کو غیرمنصفانہ، تکلیف دہ اور تشویشناک قرار دیتے ہوئے عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ وہ غزہ میں اسرائیل کے جنگی جرائم کا محاسبہ کرے۔ ترجمان نے غزہ میں اسرائیل کے مظالم کی بھرپور مذمت کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی فلسطین کے بارے میں پوزیشن بہت واضح ہے۔ پاکستان فلسطین کے عوام کے ساتھ کھڑا ہے اور فلسطینیوں کی حق خودارادیت کی جدوجہد کی حمایت جاری رکھے گا۔ ترجمان دفتر خارجہ نے مزید بتایا کہ صدر زرداری کی بیجنگ میں چینی صدر شی جی پنگ اور چینی وزیراعظم لی جیانگ سے ملاقات ہوئی۔ اس ملاقات میں پاکستان نے ون چائنا اصول پر اپنی حمایت کی تجدید کی اور چین کے بیلٹ اینڈ روڈ اقدام کو آگے بڑھانے پر اتفاق کیا۔
پشاور: پی ٹی آئی کے خیبر پختونخوا کے صدر اور پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے چیئرمین جنید اکبر نے دعویٰ کیا ہے کہ 26 ویں آئینی ترمیم میں حکومت کو ووٹ دینے کے لیے انہیں 75 کروڑ روپے کی پیشکش کی گئی تھی۔ ایک بیان میں جنید اکبر نے کہا کہ وہ پارٹی میں گدھوں اور گھوڑوں کو ایک ساتھ نہیں رکھیں گے، جو شخص ڈیلیور کرے گا وہ پارٹی کا حصہ ہوگا، اور وہ ہر قربانی دینے کے لیے تیار ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ 26 ویں آئینی ترمیم میں حکومت کو ووٹ دینے کے لیے انہیں 75 کروڑ روپے کی پیشکش کی گئی تھی۔ واضح رہے کہ گزشتہ روز مردان میں ورکرز کنونشن سے خطاب کے دوران جنید اکبر نے کہا تھا کہ وہ سیاسی کارکن ہیں، سیاسی نوکر نہیں، اور وہ غلط کو غلط اور صحیح کو صحیح کہنے کا حق رکھتے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ اگر بانی پی ٹی آئی نے بات نہ مانی تو وہ صدارت چھوڑ دیں گے، کیونکہ وہ پارٹی میں چوروں کو برداشت نہیں کریں گے، سیاست کو کاروبار نہیں بنائیں گے، اور ہر کارکن کی رپورٹ بانی پی ٹی آئی تک پہنچائیں گے۔ خیال رہے کہ حالیہ دنوں میں عمران خان نے وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور کو پارٹی کی صوبائی صدارت سے ہٹاکر جنید اکبر خان کو یہ ذمہ داری سونپی ہے۔
جوڈیشل کمیشن پاکستان نے لاہور ہائیکورٹ کے لیے 9 ایڈیشنل ججز کی تعیناتی کی منظوری دے دی۔ جوڈیشل کمیشن کا اجلاس چیف جسٹس پاکستان یحییٰ آفریدی کی زیرصدارت منعقد ہوا، جس میں لاہور ہائیکورٹ میں 10 ایڈیشنل ججز کی تعیناتی پر غور کیا گیا۔ جوڈیشل کمیشن کو 10 ایڈیشنل ججز کے لیے 49 نامزدگیاں موصول ہوئیں، جن میں 4 ڈسٹرکٹ سیشن ججز اور 45 سینئر وکلاء کے نام شامل تھے۔ اجلاس کے دوران جوڈیشل کمیشن نے خالد اسحاق، چوہدری سلطان محمود اور جواد ظفر کو ایڈیشنل جج تعینات کرنے کی منظوری دی۔ اس کے علاوہ سردار اکبر علی ڈوگر، اویس خالد اور ملک جاوید اقبال وائنس کو بھی ایڈیشنل جج تعینات کرنے کی منظوری دی گئی۔ جوڈیشل کمیشن نے احسن رضا کاظمی، حسن نواز مخدوم اور ملک وقار حیدر اعوان کو بھی ایڈیشنل جج تعینات کرنے کی منظوری دی۔
پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا ہے کہ آرمی چیف جنرل عاصم منیر کے نام عمران خان کا حالیہ خط ان کی پرانی سوچ کی عکاسی کرتا ہے اور اس کی کوئی حیثیت نہیں۔ ان کے مطابق یہ خط نہ صرف بے بنیاد ہے بلکہ اس کا کوئی جواب آنا تو درکنار، رسید تک بھی نہیں ملے گی۔ نجی ٹیلی ویژن سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ اقدام عمران خان کی شدید مایوسی اور اضطراب کا مظہر ہے۔ عرفان صدیقی نے گفتگو میں کہا کہ عمران خان کا یہ خط درحقیقت ایک چارج شیٹ ہے جو فوج کے بارے میں ان کی پرانی سوچ کو ظاہر کرتا ہے۔ انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جب فوج دہشت گردوں کے خلاف جنگ میں قربانیاں دے رہی ہے، اس کے جوان اور افسر اپنی جانیں نچھاور کر رہے ہیں، ایسے میں عمران خان کا یہ کہنا کہ عوام اور مسلح افواج کے درمیان خلیج پیدا ہو چکی ہے، نہایت افسوسناک اور غیر ذمہ دارانہ بیان ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر نے انکشاف کیا کہ یہ پہلا موقع نہیں جب عمران خان نے اس نوعیت کا خط لکھا ہو۔ انہوں نے کہا کہ 2023 کے اوائل میں بھی عمران خان نے ایک خط جنرل عاصم منیر کے نام تحریر کیا تھا جو صدر عارف علوی کے ذریعے آرمی چیف کو بھیجا گیا تھا، لیکن اس کا بھی کوئی جواب نہیں آیا تھا۔ عرفان صدیقی کے مطابق اس طرح کے خطوط سیاسی تماشے کے سوا کچھ نہیں اور ان کا کوئی عملی اثر نہیں ہوتا۔ عرفان صدیقی نے مزید کہا کہ عمران خان نے ماضی میں بھی اسی طرح کے اقدامات کیے جن کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔ وہ ایک دروازے پر دستک دیتے ہیں، پھر دوسرے دروازے پر چلے جاتے ہیں، کبھی مذاکرات کی بات کرتے ہیں اور پھر اچانک پیچھے ہٹ جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ واضح نہیں کہ کون لوگ پسِ پردہ بیٹھ کر اس طرح کے خطوط تحریر کروا رہے ہیں اور عمران خان انہیں اپنا پیغام قرار دے کر آگے بڑھا رہے ہیں۔ سینیٹر عرفان صدیقی نے تاریخی حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ماضی میں فوج کے حوالے سے خط لکھنے پر سینئر سیاستدان جاوید ہاشمی کو طویل سزا ہوئی تھی، لیکن عمران خان کو اس کا کوئی احساس نہیں۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان کو سمجھ لینا چاہیے کہ ان کے پاس واحد راستہ سنجیدہ مذاکرات کا ہے۔ اگر وہ کوئی عملی پیش رفت چاہتے ہیں تو انہیں سیاسی بلوغت کا مظاہرہ کرنا ہوگا، ورنہ بے مقصد خطوط لکھنے سے انہیں پہلے کچھ حاصل ہوا اور نہ ہی اب کچھ حاصل ہوگا۔
مسلم لیگ (ن) کے صدر اور سابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف اور وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف سے پنجاب اسمبلی کے ارکان نے ملاقات کی۔ ملاقات میں ضلع گوجرانوالہ، نارووال اور سیالکوٹ سے تعلق رکھنے والے ارکان صوبائی اسمبلی شریک تھے۔ اس موقع پر ملک کی مجموعی سیاسی و معاشی صورتحال اور پنجاب میں جاری عوامی خدمت کے منصوبوں پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا۔ ملاقات میں وزیر دفاع خواجہ آصف، سینیٹر پرویز رشید، سابق وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ، سینیئر وزیر پنجاب مریم اورنگزیب اور راشد نصر اللہ بھی شریک تھے۔ گفتگو کے دوران میاں نواز شریف نے کہا کہ پاکستان کو ماضی میں پستی کی طرف دھکیل دیا گیا تھا، تاہم اب ملک میں استحکام کی فضا خوش آئند ہے۔ انہوں نے کہا کہ مہنگائی کی رفتار میں کمی اور اسٹاک ایکسچینج کی بہتری معیشت کی بحالی کی علامت ہیں۔ سرمایہ کار برادری کا اعتماد بحال ہو رہا ہے، جو ترقی کے سفر کی رفتار میں اضافے کا ثبوت ہے۔ نواز شریف نے وزیر اعظم شہباز شریف کی خدمات کو سراہتے ہوئے کہا کہ وہ وفاق میں انتھک محنت کر رہے ہیں،جبکہ مریم نواز پنجاب میں ایک ماں اور بیٹی کے جذبے سے کام کر رہی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ جو لوگ نیک نیتی سے عوام کی خدمت کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ بھی ان کا ہاتھ تھامتا ہے۔ ارکان پنجاب اسمبلی نے وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز کو ترقیاتی کاموں پر خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ وہ ہر طبقے کی بحالی کے لیے مؤثر پروگرامز لا رہی ہیں اور عوام ان اقدامات سے خوش ہیں۔ ایک رکن اسمبلی نے کہا، "میاں صاحب، آپ مریم نواز جیسی بہادر اور قابل بیٹی پر جتنا فخر کریں کم ہے۔ ان کے اقدامات عوام کی زندگی میں مثبت تبدیلی لا رہے ہیں۔" اس موقع پر وزیر اعلیٰ مریم نواز نے کہا کہ نواز شریف کی بیٹی ہونے کے ناطے وہ عوامی خدمت کو اپنی اولین ذمہ داری سمجھتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ شہباز شریف نے جس طرزِ حکمرانی کی مثال قائم کی ہے، اسی روایت کو مسلم لیگ (ن) آگے بڑھا رہی ہے۔ مریم نواز نے ارکان اسمبلی کی حوصلہ افزائی پر شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ ان کی رہنمائی اور اعتماد ہی مسلم لیگ (ن) کی کامیابی کا راز ہے۔ انہوں نے عزم ظاہر کیا کہ عوامی خدمت کے معیار کو مزید بہتر بنایا جائے گا تاکہ پنجاب کے عوام کو زیادہ سے زیادہ ریلیف مل سکے۔ ملاقات کے دوران مختلف ترقیاتی منصوبوں پر غور کیا گیا اور ان کے مستقبل کے لائحہ عمل پر مشاورت کی گئی۔ ارکان اسمبلی نے اپنے اپنے حلقوں میں درپیش مسائل پر بھی گفتگو کی، جس پر مریم نواز نے فوری اقدامات کی یقین دہانی کرائی۔
لاہور سے لاپتہ ہونے والے صحافی زعیم لغاری تاحال بازیاب نہ ہو کسے، جس پر صحافتی برادری اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے شدید تشویش کا اظہار کیا ہے۔ مختلف ذرائع کے مطابق، انہیں مبینہ طور پر ان کے گھر سے نامعلوم افراد اٹھا کر لے گئے ہیں، اور تاحال ان کا کوئی سراغ نہیں ملا۔ سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی اطلاعات کے مطابق، زعیم لغاری نے حال ہی میں ایک رپورٹ شائع کی تھی، جس میں انہوں نے انکشاف کیا تھا کہ وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز نے موٹر سائیکل سواروں کے لیے مخصوص لین کو رنگ کرنے پر کروڑوں روپے خرچ کیے ہیں۔ ان کی یہ خبر سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تھی، جس کے بعد مبینہ طور پر انہیں نشانہ بنایا گیا۔ سابق ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی قاسم خان سوری نے اس معاملے پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ زعیم لغاری کا قصور صرف یہ تھا کہ انہوں نے مریم نواز کی کرپشن اور شوبازی کو بے نقاب کیا، جس کی پاداش میں انہیں اغوا کیا گیا ہے۔ معروف صحافی رائے ثاقب کھرل نے بھی اس واقعے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ زعیم لغاری کے اہل خانہ نے لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کر لیا ہے تاکہ ان کی فوری بازیابی کے لیے قانونی چارہ جوئی کی جا سکے۔ ہیومن رائٹس کونسل آف پاکستان نے ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر بیان جاری کرتے ہوئے زعیم لغاری کی گمشدگی پر سخت تشویش کا اظہار کیا ہے۔ اپنے پیغام میں انہوں نے مطالبہ کیا کہ زعیم لغاری کو فوری طور پر بازیاب کرایا جائے اور اس واقعے کی غیر جانبدارانہ تحقیقات کی جائیں۔ کونسل کے مطابق، صحافیوں کی حفاظت اور آزادیٔ اظہار رائے جمہوری معاشرے کے بنیادی اصول ہیں، اور اس طرح کے واقعات ناقابل قبول ہیں۔ ہیومن رائٹس کونسل آف پاکستان نے مزید کہا کہ اگر ضعیم لغاری کی خبر میں کسی قسم کی غلطی تھی، تو اس کا جواب قانونی اور اخلاقی دائرہ کار میں دیا جانا چاہیے تھا، نہ کہ انہیں زبردستی غائب کر کے۔ جبری گمشدگیاں انسانی حقوق کی صریح خلاف ورزی ہیں اور ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ شہریوں کے تحفظ کو یقینی بنائے۔ اس واقعے نے صحافتی برادری میں اضطراب کی لہر دوڑا دی ہے، اور مختلف صحافیوں، تنظیموں اور سوشل میڈیا صارفین نے زعیم لغاری کی فوری بازیابی کا مطالبہ کیا ہے۔ صحافتی حلقوں میں یہ خدشات بڑھ رہے ہیں کہ ملک میں آزادیٔ صحافت دبانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ زعیم لغاری کے خاندان نے ان کی گمشدگی کے خلاف لاہور ہائی کورٹ میں درخواست دائر کر دی ہے اور متعلقہ حکام سے انصاف کا مطالبہ کیا ہے۔ اس معاملے پر مزید پیش رفت آنے والے دنوں میں متوقع ہے، جبکہ صحافتی اور انسانی حقوق کی تنظیمیں اس کیس کو قریب سے مانیٹر کر رہی ہیں۔
وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ قوم کے بہادر سپوتوں کو اپنے خون کا نذرانہ دے کر ماضی کی سنگین غلطیوں کا ازالہ کرنا پڑ رہا ہے۔ وہ بلوچستان کے ایک روزہ دورے کے دوران دہشت گردوں کے خلاف لڑتے ہوئے زخمی ہونے والے سیکیورٹی اہلکاروں کی سی ایم ایچ میں عیادت کے بعد ایک اہم اجلاس سے خطاب کر رہے تھے۔ وزیراعظم نے قلات میں حالیہ دہشت گردی کے واقعے پر گہرے دکھ اور غم کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایک المناک سانحہ تھا جس میں 23 دہشت گردوں کو ہلاک کیا گیا جبکہ 18 سیکیورٹی اہلکاروں نے جام شہادت نوش کیا۔ انہوں نے اس واقعے میں بہادری سے مقابلہ کرنے والے افسران اور جوانوں کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ ہم اپنے شہدا اور غازیوں کو سلام پیش کرتے ہیں، پوری قوم ان کے ساتھ کھڑی ہے۔ وزیراعظم نے زخمی اہلکاروں کی ہمت اور حوصلے کو سراہتے ہوئے کہا کہ وہ زخمی ہونے کے باوجود حوصلے اور جذبے سے لبریز نظر آئے۔ انہوں نے بتایا کہ اسپتال میں موجود اہلکاروں نے کہا کہ اگر انہیں اپنی جان بھی قربان کرنی پڑتی تو وہ اس پر بھی تیار ہوتے کیونکہ وطن کی حفاظت سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں۔ وزیراعظم نے اپنے خطاب میں واضح کیا کہ دہشت گردی کی نئی لہر کو جڑ سے ختم کرنے کے لیے سیکیورٹی فورسز اور قانون نافذ کرنے والے ادارے بے مثال قربانیاں دے رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ افواجِ پاکستان، سیکیورٹی فورسز اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی قیادت میں بلوچستان، خیبرپختونخوا اور پورے ملک کو امن کا گہوارہ بنایا جائے گا، کیونکہ یہ پاکستان کی ترقی اور خوشحالی کے لیے ناگزیر ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ سیاست کرنے کا وقت نہیں بلکہ قومی اتحاد اور یکجہتی کی ضرورت ہے۔ انہوں نے تمام سیاسی جماعتوں اور قوم پر زور دیا کہ وہ اختلافات کو پس پشت ڈال کر دہشت گردوں کے خلاف متحد ہوں تاکہ ملک کو اس ناسور سے مکمل طور پر نجات دلائی جا سکے۔ وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ بدقسمتی سے ماضی میں ایسی سنگین غلطیاں ہوئیں جن کی قیمت آج ہمارے جوانوں کو اپنے خون سے چکانی پڑ رہی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ گزشتہ 78 سال میں قوم کو جس قدر اتحاد اور یکجہتی کی ضرورت آج ہے، اس سے پہلے کبھی نہیں تھی۔ وزیراعظم نے اس عزم کا اعادہ کیا کہ بلوچستان کے عوام کی ترقی اور خوشحالی حکومت کی اولین ترجیح ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ بلوچستان میں انتشار پھیلانے والے عناصر دراصل ملک کے دشمن ہیں، اور انہیں کسی بھی صورت کامیاب نہیں ہونے دیا جائے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ دہشت گردوں کے خاتمے اور عوام کے تحفظ کے لیے سیکیورٹی فورسز دن رات متحرک ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم بلوچستان کے دشمنوں کے ناپاک عزائم کو کبھی کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔ وزیراعظم نے بلوچستان میں سیکیورٹی کی صورتحال کا جائزہ لینے کے لیے اعلیٰ سطحی اجلاس کی صدارت بھی کی، جس میں گورنر بلوچستان، وزیراعلیٰ بلوچستان، نائب وزیراعظم، وزیر دفاع، وزیر اطلاعات، وزیر توانائی، چیف سیکریٹری، آئی جی پولیس، وفاقی وزرا اور پارلیمنٹیرینز نے شرکت کی۔ قبل ازیں وزیراعظم شہباز شریف کوئٹہ پہنچے، جہاں گورنر بلوچستان شیخ جعفر خان مندوخیل اور وزیراعلیٰ میر سرفراز بگٹی نے ان کا استقبال کیا۔ اپنے خطاب کے اختتام پر وزیراعظم نے کہا کہ میں ان عظیم سپوتوں کے خاندانوں کو مبارکباد پیش کرتا ہوں جنہوں نے ایسے دلیر بیٹے پیدا کیے جو پاکستان کی حفاظت کے لیے اپنی جانیں قربان کر رہے ہیں۔ انہوں نے قوم کو یقین دلایا کہ ہم متحد ہو کر دہشت گردوں کو شکست دیں گے اور پاکستان کو امن و استحکام کی راہ پر گامزن کریں گے۔ پاکستان سرخرو ہوگا، پاکستان عظیم بنے گا۔

Back
Top