خبریں

معاشرتی مسائل

Threads
0
Messages
0
Threads
0
Messages
0
None

طنز و مزاح

Threads
0
Messages
0
Threads
0
Messages
0
None
کراچی میں نوجوان مصطفیٰ عامر کے لرزہ خیز قتل کیس میں تفتیشی حکام نے اہم پیش رفت کرتے ہوئے مشہور ٹی وی اداکار ساجد حسن کے بیٹے سمیت چار افراد کو گرفتار کر لیا ہے۔ ان افراد کو ڈیفنس کے مختلف علاقوں میں آپریشن کے دوران حراست میں لیا گیا، جہاں سے منشیات بھی برآمد ہوئی۔ پولیس کے مطابق گرفتار افراد سے تفتیش جاری ہے اور انہیں مصطفیٰ عامر قتل کیس میں ہونے والی سرگرمیوں کے حوالے سے پوچھ گچھ کی جا رہی ہے۔ پولیس حکام کا کہنا ہے کہ منشیات کے کاروبار اور اس کے استعمال میں ملوث افراد کے خلاف کراچی بھر میں کارروائیاں کی جا رہی ہیں، جن کے نتیجے میں متعدد مشتبہ افراد کو حراست میں لیا جا چکا ہے۔ مصطفیٰ عامر قتل کیس: جھلسی ہوئی لاش کا معمہ اور تفتیش کی پیش رفت مصطفیٰ عامر کی جھلسی ہوئی لاش حب دریجی کے علاقے سے برآمد ہوئی تھی، جس نے سب کو ہلا کر رکھ دیا۔ ابتدائی تفتیش میں معلوم ہوا کہ اسے نہ صرف وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنایا گیا بلکہ بعد ازاں اسے ایک گاڑی سمیت آگ لگا کر زندہ جلا دیا گیا تھا۔ تفتیشی حکام نے جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے قاتلوں کے نقل و حرکت کے راستے کی نشاندہی کر لی ہے۔ معلومات کے مطابق، ملزمان بند مراد کے راستے لینڈانی ندی کے قریب پہنچے، جہاں انہوں نے گاڑی ناہموار زمین پر چلانے کی کوشش کی، مگر سخت راستہ ہونے کے باعث گاڑی کو نقصان پہنچا۔ جب گاڑی مزید نہ چل سکی، تو ملزمان نے وہیں پر اسے آگ لگا دی۔ یہ مقام دریجی تھانے سے تقریباً 18 کلومیٹر جبکہ شاہ نورانی کراس سے 45 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ تین روز بعد مقامی چرواہے نے جلی ہوئی گاڑی دیکھ کر پولیس کو اطلاع دی، جس کے بعد واقعے کی چھان بین کا آغاز کیا گیا۔ ملزم شیراز کے تہلکہ خیز اعترافات تفتیشی ٹیم کو شریک ملزم شیراز نے دوران تفتیش چونکا دینے والے انکشافات کیے ہیں۔ شیراز کے مطابق، مرکزی ملزم ارمغان قریشی نے انتہائی بے رحمی کے ساتھ مصطفیٰ عامر کو قتل کیا۔ شیراز نے اعتراف کیا کہ ارمغان نے پہلے مصطفیٰ کو کئی گھنٹوں تک تشدد کا نشانہ بنایا، اس کے ہاتھ پاؤں باندھے اور بعد ازاں حب کے علاقے میں زندہ جلا دیا۔ شیراز نے کہا کہ ارمغان ایک لڑکی سے ناراضی کی وجہ سے ذہنی دباؤ کا شکار تھا، اور اسی غصے میں آ کر اس نے مصطفیٰ کے قتل کی منصوبہ بندی کی۔ شیراز نے اپنے اعترافی بیان میں مزید کہا کہ قتل سے قبل ارمغان اور مصطفیٰ دونوں نے منشیات کا استعمال کیا تھا۔ نشے کی حالت میں ارمغان نے اچانک ڈنڈا نکالا اور مصطفیٰ کو وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنانا شروع کر دیا۔ تشدد اتنا شدید تھا کہ مصطفیٰ کے جسم سے خون بہنے لگا اور وہ نیم مردہ حالت میں تھا جب اس کے ہاتھ پاؤں باندھے گئے۔ بعد ازاں، ارمغان نے گھر سے پیٹرول کا ایک ڈرم نکالا اور اسے مصطفیٰ کی گاڑی میں رکھا۔ اس کے بعد مصطفیٰ کو زخمی حالت میں گاڑی میں ڈالا گیا۔ جب گاڑی روانہ ہوئی تو مصطفیٰ شدید زخمی تھا لیکن ابھی تک زندہ تھا۔ شیراز کے مطابق، جب وہ اور ارمغان حب پہنچے، تو وہاں ایک سنسان جگہ پر گاڑی روک دی گئی۔ ارمغان نے مصطفیٰ کو گاڑی کے اندر چھوڑ دیا، پیٹرول چھڑکا اور پھر گاڑی کو آگ لگا دی۔ دیکھتے ہی دیکھتے گاڑی شعلوں میں گھِر گئی اور مصطفیٰ زندہ جل کر ہلاک ہوگیا۔ اس وحشیانہ قتل کے بعد، ارمغان اور شیراز کئی گھنٹے پیدل سفر کرتے ہوئے بلوچستان سے کراچی واپس آئے۔ شیراز نے بتایا کہ وہ ارمغان کے طرزِ زندگی سے بے حد متاثر تھا، جس میں منشیات، مہنگی گاڑیاں، اور پرتعیش پارٹیاں شامل تھیں۔ کراچی پولیس نے اشارہ دیا ہے کہ اس کیس میں مزید گرفتاریاں کی جائیں گی، اور منشیات کے کاروبار میں ملوث دیگر افراد کے خلاف بھی کارروائی جاری ہے۔ تفتیشی ٹیم کا کہنا ہے کہ وہ جلد ہی کیس کو منطقی انجام تک پہنچائیں گے اور مجرموں کو کیفرِ کردار تک پہنچایا جائے گا۔
لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سالانہ انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے حمایت یافتہ پینل نے شاندار کامیابی حاصل کرتے ہوئے تمام عہدوں پر کلین سویپ کر لیا ہے۔ انتخابات کے نتائج کے مطابق، پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ امیدواروں نے صدر، سیکریٹری، نائب صدر اور دیگر تمام نشستوں پر کامیابی حاصل کی۔ صدر کے عہدے پر ملک آصف نسوانہ نے 7050 ووٹوں کے ساتھ فتح حاصل کی، نائب صدر کی نشست پر عبد الرحمن رانجھا کامیاب قرار پائے جبکہ سیکریٹری کے عہدے کے لیے فرخ الیاس چیمہ نے 6833 ووٹ لے کر کامیابی سمیٹی۔ نائب صدر کے عہدے پر عبدالرحمان رانجھا نے 8255 ووٹوں کے ساتھ میدان مارا۔ یہ انتخابات کمپیوٹرائزڈ سسٹم کے تحت منعقد ہوئے، جسے شفاف اور منصفانہ قرار دیا جا رہا ہے۔ پی ٹی آئی کے رہنماؤں نے اس کامیابی کو جماعت کی مقبولیت اور وکلاء برادری کی حمایت کا ثبوت قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ جیت ظاہر کرتی ہے کہ عوام اور پروفیشنل طبقات دونوں ہی تحریک انصاف کے ساتھ کھڑے ہیں۔
لاہور: مسلم لیگ ن کے سینئر رہنما نے ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر عائد پابندی ہٹانے کا مطالبہ کر دیا۔ سماجی رابطوں کے پلیٹ فارم پر اپنے بیان میں سابق وفاقی وزیر خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ ایکس پر پابندی کو ایک سال ہو چکا ہے اور ہر شخص اسے وی پی این کے ذریعے استعمال کر رہا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ایک سال کے دوران ایکس پر پابندی کا کوئی فائدہ نہیں ہوا، اس لیے اب اس پابندی کو ختم کر دینا چاہیے۔ یاد رہے کہ ایک سال قبل ملک میں ایکس پر پابندی عائد کی گئی تھی، تاہم اس دوران صارفین وی پی این کے ذریعے اس سوشل میڈیا پلیٹ فارم کا استعمال جاری رکھے ہوئے ہیں۔ رپورٹس کے مطابق ملک میں ایکس کے صارفین کی تعداد تقریباً 45 لاکھ ہے، اور یہ پابندی گزشتہ سال کے انتخابات کے بعد لگائی گئی تھی۔ دوسری جانب صحافی علینہ شگری نے خواجہ آصف کا ایک کلپ شئیر کیاہے جس میں وہ کہہ رہے ہیں کہ میں وی پی این استعمال کرتا ہوں اور کرتا رہوں گا
اسلام آباد: چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ چیف جسٹس نے انہیں پی ٹی آئی کے سسٹم میں رہنے اور بائیکاٹ نہ کرنے کا مشورہ دیا ہے۔ ڈسٹرکٹ کورٹس میں میڈیا کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے چیئرمین پاکستان تحریک انصاف بیرسٹر گوہر نے بتایا کہ وہ آج کورٹ میں 26 نومبر کی کمپلینٹ کے حوالے سے پیش ہوئے ہیں اور عدالت نے الیکشن کی وجہ سے 15 تاریخ دی ہے۔ صحافی نے سوال کیا کہ چیف جسٹس نے پی ٹی آئی کو سسٹم میں رہنے اور بائیکاٹ نہ کرنے کا مشورہ دیا، جس کی تصدیق کرتے ہوئے بیرسٹر گوہر نے جواب دیا کہ آپ کی بات بالکل درست ہے۔ انہوں نے کہا کہ چیف جسٹس سے کل ملاقات ہوئی۔ حکومت کے خلاف ہماری چارج شیٹ بہت لمبی ہے۔ عدلیہ سے ہم زیادہ خوش نہیں، ہم نے ملاقات میں عدالتی رویے کے حوالے سے گزارشات رکھی ہیں۔ پی ٹی آئی کے ساتھ ایسا سلوک کرنا جمہوریت اور قانون کے لیے ٹھیک نہیں ہے۔ یہ خبر بھی پڑھیں: پی ٹی آئی وفد نے چیف جسٹس سے ملاقات میں عمران خان سمیت دیگر درپیش مسائل اجاگر کیے، اعلامیہ بیرسٹر گوہر نے کہا کہ ہمارا الائنس کا وفد کراچی گیا ہے، یہ تحریک چلیں گی، تمام اپوزیشن کے ساتھ الائنس بنانے جا رہے ہیں۔ آئین کی سربلندی کے لیے تحریک چلا رہے ہیں تاکہ ووٹ چوری نہ ہو۔ سیاسی جماعتوں کا اپنا منشور ہوتا ہے، سب انٹرنل پراسیس کرتے ہیں، اس وجہ سے تحریک میں وقت لگتا ہے۔ بیرسٹر گوہر نے کہا کہ ہم نے کھلے دل کے ساتھ مذاکرات شروع کیے تھے، چاہتے تھے کہ مذاکرات سے حل نکلے مگر حکومت نے اسے سنجیدگی سے نہیں لیا اور جلدبازی کی۔ شیر افضل مروت کا معاملہ پارٹی کا اندرونی معاملہ ہے، کوئی بھی اگر ڈسپلن کی خلاف ورزی کرتا ہے تو ہم ایک پراسیس چلاتے ہیں۔ چیئرمین پی ٹی آئی کا کہنا تھا کہ 9 مئی میں پارٹی چھوڑنے والوں کے حوالے سے خان صاحب فیصلہ کریں گے۔ اکبر ایس بابر بھی کہتا ہے کہ وہ پارٹی کا حصہ ہے، یہ ہر بندے کی اپنی ذہنی کیفیت ہے، پی ٹی آئی کا موقف واضح ہے۔ بانی پی ٹی آئی کے خطوط جس کے نام بھی گئے، بانی پی ٹی آئی نے سنجیدہ معاملات کی طرف اشارہ کیا تاکہ فوج اور عوام میں خلیج نہ ہو۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ پی ٹی آئی کے اندرونی معاملات بالکل ٹھیک ہیں اور پارٹی میں کوئی فارورڈ بلاک نہیں ہے۔ وزیراعظم و دیگر کے خلاف کارروائی کرنے کی درخواست پر سماعت ملتوی: قبل ازیں ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ میں 26 نومبر احتجاج کے مظاہرین پر مبینہ تشدد اور قتل کے معاملے پر وزیراعظم شہباز شریف و دیگر کے خلاف قانونی کارروائی شروع کرنے کی کرمنل کمپلینٹ پر سیشن جج ناصر جاوید رانا نے سماعت کی۔ دورانِ سماعت چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر عدالت میں پیش ہوئے اور مؤقف اختیار کیا کہ آج الیکشن کی وجہ سے وکلا پیش نہیں ہوسکے۔ بعد ازاں عدالت نے کیس کی سماعت 15 مارچ تک ملتوی کر دی۔
اسلام آباد: ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی اور وطن واپسی سے متعلق کیس میں وفاقی حکومت نے اسلام آباد ہائی کورٹ کو آگاہ کیا کہ عافیہ صدیقی کی رہائی کے بدلے شکیل آفریدی کی حوالگی کی تجویز قابل عمل نہیں ہے۔ جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان نے عافیہ صدیقی کی رہائی اور وطن واپسی سے متعلق کیس کی سماعت کی۔ وفاقی حکومت کے وکیل، ایڈیشنل اٹارنی جنرل منور اقبال دوگل نے عدالت کو بتایا کہ عافیہ صدیقی کی رہائی کے بدلے شکیل آفریدی کی حوالگی کی تجویز قابل عمل نہیں ہے۔ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے امریکی وکیل کلائیو اسمتھ نے اس حوالے سے تجویز دی تھی۔ دوران سماعت، ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ عافیہ صدیقی کی امریکی عدالت میں دائر پٹیشن کے ڈرافٹ میں شامل کچھ باتوں پر حکومت کو تحفظات ہیں۔ جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان نے ریمارکس دیے کہ عافیہ صدیقی کی امریکا عدالت میں رہائی سے متعلق پٹیشن کی حمایت سے پیچھے ہٹنے کا حکومتی بیان عدالت کو حیرت میں ڈالنے والا ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے حکم دیا کہ ایڈیشنل اٹارنی جنرل حکومت سے ہدایات لے کر بتائیں کہ امریکی عدالت میں دائر عافیہ صدیقی کی پٹیشن پر کیا اعتراضات ہیں۔ عدالت نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو ہدایات لے کر اگلے جمعہ تک جواب جمع کرانے کی ہدایت کی۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے دلائل میں کہا کہ شکیل آفریدی اور عافیہ صدیقی دونوں پاکستانی ہیں، اور پاکستان نے امریکی قیدیوں کے تبادلے کا کوئی معاہدہ نہیں کیا۔ جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان نے استفسار کیا کہ شکیل آفریدی امریکا کے لیے کیوں اہم ہیں؟ شکیل آفریدی کے کیس کا اسٹیٹس کیا ہے؟ عدالتی معاون زینب جنجوعہ نے بتایا کہ شکیل آفریدی سزا یافتہ ہیں اور ان کی اپیل پشاور ہائیکورٹ میں زیر التوا ہے۔ فوزیہ صدیقی کے وکیل عمران شفیق نے بتایا کہ شکیل آفریدی پر جاسوسی اور معاونت کا الزام ہے۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ ہم نے اس حوالے سے 19 فروری کو جواب جمع کروا دیا تھا، جوبائیڈن نے درخواست مسترد کر دی لیکن خط کا جواب نہیں دیا۔ جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان نے ریمارکس دیے کہ وائٹ ہاؤس نے خط کا جواب نہیں دیا بلکہ نہ ہی اس کا اعتراف کیا، ڈپلومیٹک نارمز کیا ہیں؟ اگر کوئی ملک دوسرے کو خط لکھے تو کیا ہوتا ہے؟ اسلام آباد ہائی کورٹ نے کیس کی سماعت اگلے جمعہ تک ملتوی کر دی۔
اسلام آباد ہائیکورٹ بار نے ججز کی سینیارٹی لسٹ کو سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا ہے۔ دائر کی گئی درخواست میں صدر سے آرٹیکل 200 کی شق ایک کے تحت ججز کے تبادلے کے لامحدود اختیارات سے محروم کرنے کی استدعا کی گئی ہے۔ درخواست گزار کا مؤقف ہے کہ مفاد عامہ کے بغیر ججز کو ایک ہائیکورٹ سے دوسری ہائیکورٹ منتقل نہیں کیا جا سکتا۔ درخواست اسلام آباد ہائیکورٹ بار کے صدر ریاست علی آزاد نے آرٹیکل 184/3 کے تحت دائر کی، جبکہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے پانچ ججز نے بھی اس معاملے پر سپریم کورٹ سے رجوع کر رکھا ہے۔ دوسری جانب پشاور ہائیکورٹ میں قائم مقام چیف جسٹس کی تعیناتی کے خلاف رٹ پٹیشن دائر کر دی گئی ہے۔ مفتی نور البصر کی جانب سے دائر درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ سینئر جج کو نظر انداز کر کے جونیئر جج کی بطور قائم مقام چیف جسٹس تعیناتی آئین کی خلاف ورزی اور عدلیہ کی آزادی پر حملہ ہے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ نے وفاق المدارس کی قانونی حیثیت پر سوالات اٹھا دیے ہیں۔ درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ قائم مقام چیف جسٹس کی تعیناتی کالعدم قرار دے کر سینئر جج کو چیف جسٹس مقرر کیا جائے۔ کیس میں وفاقی حکومت، صدر مملکت، وزیراعظم، جوڈیشل کمیشن اور وزارت قانون کو فریق بنایا گیا ہے۔
مالی سال 25-2024 کی پہلی ششماہی کے دوران بڑی صنعتوں کی پیداوار میں سال بہ سال 1.87 فیصد کمی واقع ہوئی۔ پاکستان کے ادارہ شماریات کی تازہ رپورٹ کے مطابق اس گراوٹ کی بنیادی وجوہات میں مقامی اور عالمی سطح پر درپیش معاشی مشکلات، توانائی کی بڑھتی ہوئی قیمتیں، اور خام مال کی درآمدی رکاوٹیں شامل ہیں۔ اعداد و شمار کے مطابق اگست 2024 سے بڑی صنعتوں کی پیداوار میں مسلسل کمی دیکھی گئی، البتہ اکتوبر میں معمولی بہتری ہوئی۔ اگست میں پیداوار میں 2.65 فیصد جبکہ ستمبر میں 1.92 فیصد کمی ریکارڈ کی گئی، اکتوبر میں معمولی 0.02 فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا، تاہم نومبر اور دسمبر میں پیداوار میں بالترتیب 3.81 فیصد اور 3.73 فیصد کمی واقع ہوئی۔ جولائی 2024 میں 2.38 فیصد اضافہ ہوا تھا، مگر یہ رفتار برقرار نہ رہ سکی۔ خوراک کے شعبے میں معمولی 0.85 فیصد بہتری دیکھنے میں آئی، جبکہ گندم اور چاول کی ملنگ میں 5.74 فیصد اضافہ ہوا، جس کی بنیادی وجہ فصلوں کی بہتر کٹائی قرار دی گئی۔ تاہم، ویجیٹیبل گھی، کوکنگ آئل اور چائے کی پیداوار میں بالترتیب 2.82 فیصد، 0.49 فیصد اور 5.62 فیصد کمی ہوئی۔ ٹیکسٹائل کے شعبے میں 2.14 فیصد اضافہ دیکھا گیا۔ سوتی دھاگے کی پیداوار میں 8.77 فیصد جبکہ سوتی کپڑوں کی پیداوار میں 0.80 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا، جس کی بنیادی وجہ برآمدات میں بہتری تھی۔ برآمدات میں اضافے کی ایک بڑی وجہ بین الاقوامی مارکیٹ میں بنگلہ دیش سے خریداروں کا پاکستان کی طرف متوجہ ہونا ہے۔ کوئلے اور پیٹرولیم مصنوعات کے شعبے میں مجموعی طور پر 0.33 فیصد کمی دیکھی گئی، جبکہ پیٹرول کی پیداوار 3.32 فیصد گھٹ گئی۔ اس کے برعکس، ہائی اسپیڈ ڈیزل کی پیداوار میں 3.19 فیصد، مٹی کے تیل میں 17.76 فیصد اور سالوینٹ نیپتھا میں 30.98 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ تاہم، فرنس آئل، ایل پی جی اور جیٹ فیول آئل کی پیداوار میں منفی رجحان برقرار رہا۔ مالی سال 2025 کے ابتدائی 6 ماہ میں آٹو انڈسٹری نے 50.16 فیصد ترقی کی۔ جیپوں اور کاروں کی پیداوار میں 46.82 فیصد، لائٹ کمرشل وہیکلز میں 219.11 فیصد، ٹرکوں میں 112.80 فیصد اور بسوں میں 44.31 فیصد اضافہ ہوا۔ تاہم، ڈیزل انجنوں کی پیداوار میں 9.26 فیصد کمی دیکھنے میں آئی۔ پچھلے چند سالوں میں آٹو انڈسٹری کو طلب میں کمی، افراط زر، اور آٹو فنانسنگ آپشنز کی سخت شرائط جیسے مسائل کا سامنا رہا ہے، مگر موجودہ اضافے سے اس شعبے میں بہتری کی امید پیدا ہوئی ہے۔ لوہے اور اسٹیل کی پیداوار میں 12.04 فیصد کمی دیکھنے میں آئی، جبکہ تعمیراتی صنعت میں استعمال ہونے والے بلٹ/انگوٹس کی پیداوار میں 28.70 فیصد کمی ہوئی۔ ایچ/سی آر شیٹس، پٹیوں، کوائلز اور پلیٹوں کی پیداوار میں بھی 2.60 فیصد کمی ریکارڈ کی گئی، جو تعمیراتی شعبے میں سست روی کی نشاندہی کرتی ہے۔ فارماسیوٹیکل شعبے میں 1.85 فیصد اور کھاد کی پیداوار میں 2.04 فیصد اضافہ دیکھا گیا، جو زرعی اور صحت کے شعبوں میں بہتر کارکردگی کو ظاہر کرتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق، بعض صنعتوں میں بہتری دیکھنے میں آئی، تاہم مجموعی طور پر بڑی صنعتوں کی پیداوار میں کمی کا رجحان غالب رہا۔ آٹو انڈسٹری اور برآمدی ٹیکسٹائل مصنوعات نے مثبت کارکردگی دکھائی، مگر توانائی، اسٹیل، اور پیٹرولیم مصنوعات کے شعبے میں کمی نے صنعتوں کی مجموعی پیداوار پر منفی اثر ڈالا۔ اگر حکومت معاشی استحکام، توانائی کی لاگت میں کمی، اور صنعتی ترقی کے لیے پالیسی اقدامات پر توجہ دے تو یہ صورتحال بہتر ہو سکتی ہے۔
واشنگٹن میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی سے ملاقات کے بعد مشترکہ پریس کانفرنس میں اعلان کیا کہ امریکا 2025 سے بھارت کو فوجی ساز و سامان کی فروخت میں اربوں ڈالر کا اضافہ کرے گا، جس میں ایف 35 اسٹیلتھ لڑاکا طیارے بھی شامل ہوں گے۔ تاہم، انہوں نے یہ واضح نہیں کیا کہ بھارت کو ان طیاروں کی فراہمی کب سے شروع ہوگی، کیونکہ اس طرح کی جدید ٹیکنالوجی کی منتقلی میں عام طور پر کئی سال لگ جاتے ہیں۔ صدر ٹرمپ نے کہا کہ دونوں ممالک نے ایک تجارتی معاہدہ بھی کیا ہے، جس کے تحت بھارت امریکی تیل اور گیس کی درآمد میں اضافہ کرے گا تاکہ تجارتی خسارے کو کم کیا جا سکے۔ ان کے مطابق، بھارت امریکی دفاعی ساز و سامان کی خریداری میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کا خواہاں ہے اور امریکا کو توانائی کا بنیادی سپلائر بنانے کا ارادہ رکھتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ واشنگٹن اور نئی دہلی بنیاد پرست اسلامی دہشت گردی کے خطرے کا مقابلہ کرنے کے لیے مل کر کام کریں گے۔ بھارتی سیکریٹری خارجہ وکرم مصری نے کہا کہ بھارت غیر ملکی فوجی ساز و سامان کی خریداری کے ایک جامع منصوبے پر کام کر رہا ہے، جس میں مختلف تیار کنندگان سے تجاویز طلب کرنا اور ان کا جائزہ لینا شامل ہے۔ ایف 35 طیاروں کی فروخت کے اعلان کے بارے میں پوچھے جانے پر انہوں نے کہا کہ بھارت نے جدید ایوی ایشن پلیٹ فارم کے حصول کے لیے باضابطہ عمل ابھی شروع نہیں کیا، اور یہ منصوبہ ابھی تجویز کے مرحلے میں ہے۔ ایف 35 طیارے بنانے والی کمپنی لاک ہیڈ مارٹن نے کہا کہ بھارت کو ایف 35 کی فروخت کے حوالے سے کوئی بھی بات چیت حکومت سے حکومت کی سطح پر ہوگی۔ امریکا کی جانب سے بھارت کو جدید ہتھیاروں کی فروخت کے اعلان پر پاکستان نے تشویش کا اظہار کیا ہے۔ ترجمان دفتر خارجہ شفقت علی خان نے ہفتہ وار پریس بریفنگ میں کہا کہ امریکا کی جانب سے بھارت کو جدید ٹیکنالوجی کے حامل ہتھیاروں کی فراہمی خطے میں طاقت کے توازن کو بگاڑ سکتی ہے۔ پاکستان اس پیش رفت کو تشویش کی نظر سے دیکھ رہا ہے اور اس معاملے کو سفارتی سطح پر اٹھائے گا۔ دفتر خارجہ کے مطابق، پاکستان اپنی دفاعی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے تمام ممکنہ آپشنز پر غور کرے گا۔ ٹرمپ اور مودی کی ملاقات کے بعد جاری کردہ مشترکہ بیان میں کہا گیا ہے کہ امریکا نے بھارت کی جانب سے امریکی زرعی مصنوعات تک مارکیٹ رسائی بڑھانے اور امریکی مصنوعات پر محصولات میں کمی کے اقدامات کا خیرمقدم کیا ہے۔ دونوں ممالک 2025 کے موسم خزاں تک تجارتی معاہدے کے ابتدائی حصوں پر بات چیت مکمل کرنے کی کوشش کریں گے۔
سپریم کورٹ نے حراسگی کے ملزم کی نوکری سے جبری ریٹائرمنٹ کے خلاف درخواست مسترد کردی۔ سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں دو رکنی بنچ نے 9 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ جاری کیا۔ عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ دنیا میں ہر پانچ میں سے تقریباً ایک شخص کسی نہ کسی طرح کام کی جگہ حراسگی یا تشدد کا شکار ہے، اور حراسگی کا عمل خواتین کی معاشی اور پیشہ ورانہ ترقی کو محدود کرکے صنفی تقسیم کو برقرار رکھتا ہے۔ گلوبل جینڈر گیپ انڈیکس میں پاکستان 146 ممالک میں 145 ویں نمبر پر ہے۔ فیصلے میں یہ بھی کہا گیا کہ حراسگی سے متاثرہ ڈاکٹر سدرہ ظفر نے اپنے ڈرائیور کے خلاف پنجاب محتسب میں شکایت درج کرائی۔ شکایت کے مطابق، ڈرائیور محمد دین ڈاکٹر سدرہ ظفر کے حوالے سے نازیبا حرکات اور الفاظ استعمال کرتا تھا اور ڈاکٹر کی ایک مریض کے الٹرا ساونڈ کے دوران ویڈیو بنا کر بدنام کرنے کی کوشش کی۔ سپریم کورٹ نے فیصلے میں لکھا کہ پنجاب محتسب نے جرم ثابت ہونے پر ڈرائیور کو جبری طور پر نوکری سے ریٹائرمنٹ کا حکم دیا تھا، جس کے بعد گورنر پنجاب اور لاہور ہائیکورٹ نے بھی ڈرائیور کی درخواست مسترد کردی تھی۔ عدالت عظمیٰ نے قرار دیا کہ کام کی جگہ پر حراسگی ایک شخص کی خودمختاری اور عزت کو مجروح کرتی ہے۔ حراسگی کسی شخص کی غلبہ پانے کی خواہش سے جنم لیتی ہے اور اس کا تعلق کسی پوزیشن سے نہیں، بلکہ طاقت کے اظہار سے ہے۔ ڈرائیور نے چھوٹی پوزیشن پر ہونے کے باوجود اپنی جنس کی بنیاد پر طاقت کا مظاہرہ کیا۔ سپریم کورٹ نے فیصلے میں مزید لکھا کہ دنیا بھر میں عدالتوں نے کام کی جگہ پر حراسگی سے متعلق قوانین کی تشکیل میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ سپریم کورٹ کو لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے میں کوئی بے قاعدگی یا غلطی نظر نہیں آئی، لہٰذا سپریم کورٹ اس درخواست کو مسترد کرتی ہے۔
کراچی: پاکستان پیٹرولیم ڈیلرز نے ڈی ریگولیشن پالیسی کو مسترد کرتے ہوئے ملک بھر میں پیٹرول پمپس بند کرنے کا اشارہ دے دیا ہے۔ چیئرمین آل پاکستان پیٹرولیم ڈیلرز ایسوسی ایشن عبدالسمیع خان نے ویڈیو پیغام میں کہا کہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں پر ڈی ریگولیٹ فارمولے کو مسترد کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ڈی ریگولیٹ فارمولہ عائد ہونے سے پیٹرولیم اسمگلنگ اور ملاوٹ کا سلسلہ شروع ہو جائے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کو ڈی ریگولیٹ کرنے سے پیٹرول پمپ اپنی قیمت کا تعین خود کرے گا۔ سینٹرل کمیٹی کا ہنگامی اجلاس طلب کر لیا گیا ہے اور آج ملک بھر میں احتجاجی بینرز آویزاں کر دیے جائیں گے۔ عبدالسمیع خان نے کہا کہ وزارت پیٹرولیم کو ہنگامی خط میں ڈی ریگولیٹ فارمولے کی مخالفت کرتے ہوئے مارجن بڑھانے کا مطالبہ کیا جائے گا۔ پیٹرولیم ڈیلرز کا فی لیٹر مارجن 4 فیصد اضافے کے ساتھ 13 روپے کیا جائے۔ اوگرا نے ڈی ریگولیٹ فارمولے پر پیٹرولیم ڈیلرز کی حمایت کی، مگر وزارت کے سامنے بولنے کی ہمت نہیں کی۔ چیئرمین پی پی ڈی اے کا کہنا تھا کہ ایران سے پیٹرولیم اسمگلنگ دوبارہ بڑھنا شروع ہوگئی ہے۔ اسمگلنگ ختم کرنے کے لیے وفاق ایران سے قانونی معاہدہ کرے۔ مصدق ملک نے پیٹرولیم ڈیلرز کو نظرانداز کیا، اور میں دعویٰ کرتا ہوں کہ ڈی ریگولیشن سے عوام کو سستا پیٹرول نہیں ملے گا۔
پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد کے پاس دریائے سواں کے قریب واقع تخت پڑی کے جنگلات، جو کبھی سرسبز و شاداب تھے، اب غیر قانونی تعمیرات اور ہاؤسنگ سکیموں کی نذر ہو چکے ہیں۔ یہ معاملہ اب ملک کی عدالتوں اور قومی احتساب بیورو (نیب) کے زیرِ سماعت ہے، جس میں پاکستان کے بڑے پراپرٹی ڈویلپر ملک ریاض اور پاکستانی افواج کے زیرِ انتظام ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی (ڈی ایچ اے) پر جنگلات کی زمینوں پر غیر قانونی قبضے کے سنگین الزامات عائد ہیں۔ بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق ایک وقت تھا جب یہ جنگلات بہت گھنے اور سرسبز تھے، اور اس علاقے کی اہمیت ماحول کے حوالے سے بہت زیادہ تھی۔ تاہم، صرف 20 سال پہلے تک یہاں جو قدرتی ماحول تھا، وہ اب بدل چکا ہے۔ اب یہاں ملک ریاض کے بحریہ ٹاؤن اور پاکستانی فوج کے زیر انتظام چلنے والے ادارے ڈی ایچ اے کے منصوبے نظر آتے ہیں۔ یہ منصوبے جو پہلے جنگلات کی زمین پر بنائے گئے، اب تک ان پر قبضے کے الزامات سامنے آ چکے ہیں۔ پرتعیش عمارات والا یہ علاقہ جس زمین پر موجود ہے، وہ نہ صرف جنگلات کی زمین ہے بلکہ عدالتی تحقیقات کے مطابق تخت پڑی کے جنگلات پر تعمیرات قبضہ کر کے بنائی گئیں۔ تخت پڑی کے یہ جنگلات مبینہ غیر قانونی تعمیرات کی نذر تو کئی سال سے ہو رہے ہیں لیکن ان کا ذکر حال ہی میں پاکستان میں انسداد بد عنوانی کے ادارے نیب کے ایک بیان میں ملتا ہے۔ نیب کے اس بیان میں الزام لگایا گیا کہ ملک ریاض اور ان کے ساتھیوں نے بحریہ ٹاؤن کے نام پر کراچی، تخت پڑی راولپنڈی اور نیو مری میں زمینوں پر قبضے کیے۔ جج مظہر منہاس، جو اب ریٹائر ہو چکے ہیں، کی 2011 کی ایک تحقیقاتی رپورٹ میں درج ہے کہ تخت پڑی جنگل کی صفائی بحریہ ٹاؤن اور ڈی ایچ اے نے مل کر کی۔ بحریہ ٹاؤن اور ڈی ایچ اے قبضے کے الزامات کی تردید کرتے ہیں لیکن سپریم کورٹ کے 2018 کے ایک فیصلے کے مطابق بھی بحریہ ٹاؤن اور ڈی ایچ اے نے سرکاری جنگلات اور شاملات کی اراضی پر قبضہ کر رکھا ہے۔ ڈی ایچ اے ان جنگلات سمیت ملک میں کسی بھی جگہ پر قبضے کی تردید کرتا ہے۔ فوج کے زیرانتظام چلنے والے اس ادارے کے مطابق ڈی ایچ اے نے تخت پڑی سمیت جنگلات کی زمین پر بھی قبضہ نہیں کیا اور ڈی ایچ اے کا سیکٹر ایف بھی بحریہ ٹاؤن کی ملکیت میں ہے۔ سپریم کورٹ آف پاکستان نے جنگلات کی جگہ پر قبضے کی شکایات پر محکمہ جنگلات اور سروے آف پاکستان کو نئے سرے سے ایک سروے کرنے کی ہدایت کی تھی جس کے بعد عدالت نے ان محکموں کی طرف سے جمع کرائی گئی تحریری رپورٹ اور سروے کا 2018 کے اپنے فیصلے میں حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس رپورٹ سے ظاہر ہوتا ہے کہ گوگل ارتھ کے مطابق 17 اپریل 2005 تک پورا تخت پڑی جنگل اپنی جگہ پر موجود نظر آتا ہے جبکہ اس کے بعد 9 اکتوبر 2005 تک درخت کاٹ دیے گئے اور جنگل کی جگہ تعمیرات شروع کردی گئیں۔ بی بی سی نے جن افسران سے سرکاری ریکارڈ تک دسترس حاصل کرنے کی بات کی تو انھوں نے اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر حامی بھری۔ ان کا مؤقف تھا کہ انھیں ان رہائشی منصوبوں کی جانب سے سخت دباؤ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے 2018 میں اپنے ایک فیصلے میں متعلقہ حکام کو ہدایات جاری کی تھیں کہ یہ قبضہ چھڑوایا جائے جس کے بعد قومی احتساب بیورو (نیب) نے عدالت کو متعدد سماعتوں پر بتایا کہ تحقیقات جاری ہیں اور عدالتی فیصلے کے مطابق کارروائی آگے بڑھائی جائے گی تاہم محکمہ جنگلات پنجاب کے چیف کنزرویٹر آفیسر عبدالمقیت خان کہتے ہیں کہ اب تک ایسا نہیں ہو سکا۔ ان کا مؤقف ہے کہ سانس لینے کے لیے آکسیجن درکار ہے، لہٰذا جنگلات کی جس زمین پر قبضہ ہوا، وہ واپس دلائی جائے یا اس کے متبادل کوئی جگہ دی جائے۔ نیب نے حالیہ بیان میں کہا کہ ملک ریاض عدالتی مفرور ہیں اور ساتھ یہ تنبیہ بھی کی گئی کہ بحریہ ٹاؤن کے دبئی پروجیکٹ میں سرمایہ کاری کو منی لانڈرنگ تصور کیا جائے گا۔ نیب کے مطابق ملک ریاض اور ان کے ساتھیوں نے بحریہ ٹاؤن کے نام پر کراچی، تخت پڑی راولپنڈی اور نیو مری میں زمینوں پر قبضے کیے اور سرکاری و نجی اراضی پر ناجائز قبضہ کر کے بغیر اجازت نامے کے ہاؤسنگ سوسائٹیز قائم کرتے ہوئے لوگوں سے اربوں روپے کا فراڈ کیا۔ ملک ریاض اس وقت دبئی میں مقیم ہیں اور نیب کا کہنا ہے کہ حکومت پاکستان قانونی چینلز کے ذریعے ملک ریاض کی حوالگی کے لیے متحدہ عرب امارات سے رابطہ کر رہی ہے۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق جنگلات کی زمین پر بحریہ ٹاؤن کے نام 483.99 ایکڑ زمین کا قبضہ سرکاری دستاویزات کا حصہ ہے۔ اس رقبے میں سے 163.36 ایکڑ بحریہ ٹاؤن کے فیز ایٹ میں شامل کر دی گئی۔ بحریہ سپرنگ نارتھ کو 185.17 ایکڑ دی گئی۔ اوورسیز سیکٹر ون کے لیے 5.29 ایکڑ جبکہ گارڈن سٹی کے تین سیکٹرز کے لیے 110.17 ایکڑ جنگلات کی زمین کام میں لائی گئی۔ تخت پڑی جنگلات کی تقریباً 300 ایکڑ زمین پر اب ڈی ایچ اے کی تعیمرات ہیں۔ سرکاری دستاویزات کے مطابق تخت پڑی جنگلات کی زمین میں سے ڈی ایچ اے تھری میں 9.01 ایکڑ، ڈیفنس ولاز کے لیے 74.84 ایکڑ، ڈی ایچ اے کے سیکٹر ایف کے لیے 202.48 ایکڑ زمین شامل کی گئی۔ بحریہ ٹاؤن نے ڈی ایچ اے کو بھی زمین ٹرانسفر کی اور بحریہ ٹاؤن اور ڈی ایچ اے نے مل کر جنگلات کی زمین میں سے 754.92 ایکڑ زمین اپنے رہائشی منصوبے کا حصہ بنا دی۔ سپریم کورٹ نے بحریہ ٹاؤن کے خلاف واضح احکامات جاری کیے لیکن آج بھی نیب کا مؤقف ہے کہ تحقیقات جاری ہیں۔ تخت پڑی جنگلات کے معاملے میں عدالتی فیصلے موجود ہیں، انکوائری رپورٹس اور سرکاری دستاویزات میں زمینوں کے غیر قانونی حصول کے شواہد درج ہیں، مگر زمین واپسی اور ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کی صورت حال جوں کی توں ہے۔ عدالت کی ہدایت کے باوجود اب تک بحریہ ٹاؤن اور ڈی ایچ اے کے خلاف کوئی عملی اقدام دیکھنے کو نہیں ملا، اور محکمہ جنگلات تاحال زمین کی واپسی کے انتظار میں ہے۔'
لاہور ہائی کورٹ کے دو رکنی بینچ نے چیئرمین نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) لیفٹیننٹ جنرل منیر افسر کو عہدے سے ہٹانے کے خلاف وفاقی حکومت کی انٹرا کورٹ اپیل منظور کرلی اور سنگل بینچ کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا۔ لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس چوہدری اقبال اور جسٹس احمد ندیم ارشد پر مشتمل بینچ نے یہ فیصلہ سنایا۔ جسٹس چوہدری محمد اقبال کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے تفصیلی دلائل سننے کے بعد وفاقی حکومت کی درخواست پر فیصلہ دیا اور منیر افسر کو چیئرمین نادرا کے عہدے پر بحال کر دیا۔ یہ معاملہ اس وقت شروع ہوا جب 6 ستمبر 2024 کو لاہور ہائی کورٹ کے سنگل بینچ نے شہری اشبا کامران کی درخواست منظور کرتے ہوئے چیئرمین نادرا لیفٹیننٹ جنرل محمد منیر افسر کی تقرری کو کالعدم قرار دیا تھا۔ جسٹس عاصم حفیظ نے 30 صفحات پر مشتمل فیصلے میں قرار دیا تھا کہ چیئرمین نادرا کی تعیناتی قانونی جواز کے بغیر کی گئی، اور یہ کہ مجاز اتھارٹی نے ایسے اختیارات استعمال کیے جو قانون نے انہیں تفویض نہیں کیے تھے۔ وفاقی حکومت نے اس فیصلے کے خلاف لاہور ہائی کورٹ میں انٹرا کورٹ اپیل دائر کی تھی، جس میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ چیئرمین نادرا کی تقرری قانونی طریقہ کار کے مطابق ہوئی تھی اور سنگل بینچ کا فیصلہ حقائق کے برعکس تھا۔ دو رکنی بینچ نے اس اپیل پر سماعت مکمل کرنے کے بعد فیصلہ سنایا اور سنگل بینچ کے فیصلے کو کالعدم قرار دے دیا۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ نگران وفاقی حکومت نے 2 اکتوبر 2023 کو اس وقت جی ایچ کیو میں تعینات آئی جی کمیونیکیشن اینڈ آئی ٹی لیفٹیننٹ جنرل محمد منیر افسر کو نادرا کا چیئرمین مقرر کیا تھا۔ اب لاہور ہائی کورٹ کے دو رکنی بینچ کے فیصلے کے بعد ان کی تقرری برقرار رہے گی۔
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے بحری امور کے اجلاس میں چیئرمین کمیٹی سینیٹر فیصل واوڈا نے ایک بڑے مالیاتی اسکینڈل کا انکشاف کرتے ہوئے بتایا کہ کراچی پورٹ کی 40 ارب روپے کی سرکاری زمین محض 5 ارب میں دے دی گئی ہے۔ انہوں نے اس سودے کو ایک میگا اسکینڈل قرار دیتے ہوئے فوری تحقیقات اور زمین کی غیر شفاف الاٹمنٹ کو روکنے کا حکم دیا۔ اجلاس میں وفاقی وزیر برائے بحری امور قیصر احمد شیخ، سینیٹر دنیش کمار، وزارت بحری امور کے سیکریٹری ظفر علی شاہ اور دیگر حکام بھی شریک تھے۔ اجلاس کے دوران وزارت بحری امور اور اس سے منسلک محکموں کی کارکردگی پر بریفنگ دی گئی۔ سیکریٹری میری ٹائم نے بتایا کہ ملک میں 25 سال بعد ایک نئی میری ٹائم پالیسی متعارف کرائی جا رہی ہے، کیونکہ کراچی پورٹ کے قوانین 100 سال جبکہ پورٹ قاسم کے قوانین 50 سال پرانے ہیں۔ انہوں نے مزید بتایا کہ شپنگ انڈسٹری کو ماحولیاتی آلودگی اور انفراسٹرکچر کی کمزوریوں کے باعث شدید مشکلات کا سامنا ہے، جبکہ ملک میں اس وقت صرف 12 کمرشل بحری جہاز موجود ہیں۔ اجلاس کے دوران سینیٹر دنیش کمار نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ہر حکومت اور نیا وزیر آکر ایک ہی جیسی بریفنگ دیتا ہے، لیکن عملی طور پر قوانین میں کوئی بہتری نہیں آتی۔ انہوں نے کہا کہ کے پی ٹی میں بڑے پیمانے پر اصلاحات کی ضرورت ہے، جہاں یونین کا اثر و رسوخ اتنا زیادہ ہے کہ ہر چیئرمین ان کے دباؤ کے آگے بے بس ہو جاتا ہے۔ انہوں نے انکشاف کیا کہ کے پی ٹی میں ایک عام ڈرائیور کی تنخواہ بھی ساڑھے تین لاکھ روپے ہے، جو کہ ڈالرز میں ادا کی جاتی ہے، جبکہ میڈیکل اخراجات کی مد میں بھی 80 کروڑ روپے دیے جا رہے ہیں۔ اجلاس میں فیصل واوڈا نے کراچی پورٹ کی زمین کے غیر شفاف سودے کا انکشاف کرتے ہوئے بتایا کہ 500 ایکڑ زمین، جس کی مارکیٹ ویلیو 60 ارب روپے سے زائد ہے، اسے صرف 5 ارب روپے میں دیا گیا ہے۔ انہوں نے کراچی پورٹ کی زمینوں کی فوری الاٹمنٹ روکنے اور اس معاملے کی مکمل تحقیقات کرنے کا مطالبہ کیا۔ فیصل واوڈا نے مزید کہا کہ کراچی پورٹ میں زمینوں کی الاٹمنٹ میں بڑے پیمانے پر بے ضابطگیاں ہو رہی ہیں، اور یہ سودے شفافیت کے بغیر کیے جا رہے ہیں۔ انہوں نے اعلان کیا کہ کراچی پورٹ میں زمینوں کی الاٹمنٹ کو اسپیشل انویسٹمنٹ فسیلیٹیشن کونسل (SIFC) کی مشاورت کے بغیر نہیں چلنے دیا جائے گا۔ وفاقی وزیر بحری امور قیصر احمد شیخ اور سیکریٹری میری ٹائم نے اس معاملے پر لاعلمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بورڈ کی اجازت کے بغیر کسی بھی سرکاری زمین کی الاٹمنٹ ممکن نہیں، اور اس پر مزید تحقیقات کی ضرورت ہے۔ فیصل واوڈا نے کہا کہ وہ اس پورے معاملے کو وزیراعظم کے علم میں لانے کے لیے خط لکھ رہے ہیں، اور کمیٹی کی آئندہ میٹنگز میں اس معاملے پر مزید سخت اقدامات اٹھائے جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں ملک کی معیشت کو بہتر کرنے کے لیے زمینوں کی غیر شفاف الاٹمنٹ کو روکنا ہوگا۔ فیصل واوڈا نے اعلان کیا کہ 50 دن کے اندر تمام متنازعہ زمینوں کو کلیئر کر دیا جائے گا، اور اس اسکینڈل میں ملوث افراد کے خلاف سخت کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان نے کئی ارب ڈالر کے قرضے لیے ہوئے ہیں، لیکن اگر ان غیر قانونی سودوں کو روکا جائے تو یہی رقم قومی خزانے میں واپس آ سکتی ہے۔ اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے فیصل واوڈا نے کہا کہ وہ اس معاملے پر سیاست کر سکتے تھے، لیکن ان کی اولین ترجیح پاکستان ہے۔ انہوں نے کہا کہ 8 سے 10 کروڑ روپے فی ایکڑ کی زمین کو صرف 10 لاکھ روپے فی ایکڑ میں دیا گیا، اور وہ بھی ادھار پر۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ ان کے اقدامات سے قوم کے 60 سے 70 ارب روپے بچائے گئے ہیں، اور تمام غیر قانونی الاٹمنٹ کو فوری طور پر روک دیا گیا ہے۔ فیصل واوڈا نے کہا کہ زمینوں کے معاملے پر تین فہرستیں طلب کی گئی ہیں، اور اس حوالے سے مزید سخت فیصلے جلد کیے جائیں گے۔ وفاقی وزیر قیصر احمد شیخ نے میڈیا سے گفتگو میں یقین دہانی کرائی کہ 60 ارب روپے مالیت کی کراچی پورٹ اور پورٹ قاسم کی اراضی کی منتقلی کے معاملے پر مکمل تحقیقات کی جائیں گی، اور آئندہ چند دنوں میں اس پر حکومتی مؤقف پیش کیا جائے گا۔ کراچی پورٹ اور پورٹ قاسم کی زمینوں کی غیر شفاف الاٹمنٹ کے انکشاف کے بعد سینیٹ کمیٹی نے اس معاملے پر سخت اقدامات کا فیصلہ کیا ہے۔ فیصل واوڈا نے واضح کیا ہے کہ یہ معاملہ صرف ایک سیاسی نعرہ نہیں بلکہ ایک عملی قدم ہوگا، اور اگر کمیٹی اپنے اعلانات پر عملدرآمد کرنے میں کامیاب ہوتی ہے، تو یہ قومی خزانے کے لیے ایک بڑی کامیابی ثابت ہو سکتی ہے۔
جہلم میں پنجاب پولیس کی بھرتی کے دوران بدنظمی دیکھنے میں آئی، جہاں امیدواروں پر مبینہ لاٹھی چارج کے خلاف احتجاج نے شدت اختیار کر لی۔ امیدواروں کا کہنا ہے کہ پولیس اہلکاروں نے افسران کے حکم پر ان پر لاٹھی چارج کیا، جس سے متعدد امیدوار زخمی اور بے ہوش ہو گئے، جبکہ پولیس انتظامیہ نے اس واقعے سے لاعلمی کا اظہار کیا ہے۔ پنجاب پولیس میں بھرتیوں کا عمل جاری تھا، اور امیدواروں کو دوڑ کے مرحلے کے لیے ایک نجی ہاؤسنگ سوسائٹی میں بلایا گیا تھا۔ تاہم، دوڑ کے مکمل ہونے سے قبل ہی متعدد امیدواروں نے بدانتظامی اور مبینہ جانبداری کے خلاف احتجاج شروع کر دیا، جس کے نتیجے میں موقع پر کشیدگی پیدا ہو گئی۔ مظاہرین نے جی ٹی روڈ بلاک کر کے احتجاجی مظاہرہ کیا اور پولیس کے خلاف نعرے بازی کی۔ مظاہرین کا مؤقف تھا کہ اسکروٹنی کمیٹی نے جانبداری کا مظاہرہ کیا اور دوڑ کے دوران من پسند امیدواروں کو خصوصی رعایت دی گئی۔ ان کے مطابق جب کچھ امیدواروں نے اس ناانصافی کے خلاف آواز بلند کی تو انہیں پولیس اہلکاروں نے مبینہ طور پر تشدد کا نشانہ بنایا اور سنگین نتائج کی دھمکیاں دی گئیں۔ موقع پر موجود امیدواروں نے دعویٰ کیا کہ پولیس اہلکاروں کے تشدد کے نتیجے میں کئی امیدوار زخمی اور بعض بے ہوش بھی ہو گئے، جنہیں فوری طبی امداد فراہم کی گئی۔ مظاہرین نے اعلیٰ حکام سے مطالبہ کیا کہ اس معاملے کا نوٹس لیا جائے اور ناانصافی میں ملوث افسران کے خلاف کارروائی کی جائے۔ دوسری جانب پولیس انتظامیہ نے ان الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ بھرتی کے عمل کے دوران کسی امیدوار پر کسی قسم کا تشدد نہیں کیا گیا۔ پولیس کے مطابق تمام مراحل شفاف طریقے سے مکمل کیے جا رہے ہیں، اور بھرتی کے عمل میں میرٹ کو یقینی بنایا جا رہا ہے۔ احتجاج کے باعث جی ٹی روڈ پر ٹریفک کی روانی متاثر ہوئی، اور شہریوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ تاہم، مقامی انتظامیہ نے موقع پر پہنچ کر صورتحال کو کنٹرول کیا اور امیدواروں سے مذاکرات کی کوشش کی۔ یہ پہلا موقع نہیں کہ پولیس بھرتی کے عمل میں بدنظمی اور جانبداری کے الزامات سامنے آئے ہوں۔ ماضی میں بھی امیدوار میرٹ کی خلاف ورزی اور اقربا پروری کے الزامات عائد کرتے رہے ہیں۔ تاہم، حکام کی جانب سے ہمیشہ یہی دعویٰ کیا جاتا ہے کہ بھرتیاں مکمل طور پر شفاف انداز میں کی جاتی ہیں۔
پنجاب میں خواتین کے خلاف جرائم کی تفتیش کرنے والے اسپیشل انویسٹی گیشن یونٹ کی ناقص کارکردگی کے اعداد و شمار سامنے آ گئے، جن کے مطابق ہزاروں مقدمات درج ہونے کے باوجود مجرموں کو سزا دلوانے میں پولیس اور تفتیشی ادارے ناکام رہے۔ حکام کی جانب سے جاری کردہ تفصیلات کے مطابق پنجاب میں گزشتہ ایک سال کے دوران خواتین کے خلاف جرائم پر 70 ہزار کیسز درج کیے گئے، تاہم صرف 869 ملزمان کو سزا مل سکی۔ ناقص تفتیش کو ان کم سزا یافتہ کیسز کی بنیادی وجہ قرار دیا جا رہا ہے، جس کے باعث بیشتر ملزمان قانونی کارروائی سے بچ نکلنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ اعداد و شمار کے مطابق لاہور میں خواتین کے خلاف جرائم کے کیسز میں کسی بھی ملزم کو سزا نہ ہو سکی، جبکہ مجموعی طور پر لاہور سے 65 ملزمان اور صوبے بھر سے 2,388 ملزمان بری ہو گئے۔ پولیس ریکارڈ کے مطابق صوبے میں ایک سال کے دوران 60 ہزار 200 مقدمات درج ہوئے، جبکہ لاہور میں اسی مدت میں 10 ہزار 100 کیسز رجسٹر کیے گئے۔ پولیس حکام کے مطابق خواتین کے خلاف جرائم سے نمٹنے کے لیے انسپکٹر جنرل (آئی جی) پنجاب کی ہدایت پر خصوصی سیل تشکیل دیا گیا تھا، جس کا مقصد ایسے مقدمات میں موثر تحقیقات کو یقینی بنانا تھا۔ تاہم، وسائل کی فراہمی اور خصوصی سیل کے قیام کے باوجود خواتین کے خلاف جرائم میں ملوث ملزمان کو سزائیں دلوانے کی شرح انتہائی کم رہی، جس پر انسانی حقوق کے کارکنان اور خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں نے شدید تشویش کا اظہار کیا ہے۔ یہ امر تشویشناک ہے کہ پنجاب میں خواتین کے خلاف جرائم کی شرح میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ جنسی زیادتی، تیزاب حملے، گھریلو تشدد، اور دیگر صنفی جرائم کے واقعات میں تیزی سے اضافہ دیکھنے میں آیا ہے، مگر مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچانے میں تفتیشی ادارے ناکام دکھائی دیتے ہیں۔
لاہور کے سروسز ہسپتال میں آئی سی یو کے لئے ضروری سامان کی کمی کا سنگین مسئلہ سامنے آیا ہے، جس کے باعث غریب مریضوں کو وینٹی لیٹرز کے باوجود سانس لینے میں مشکلات کا سامنا ہے۔ ہسپتال کی انتظامیہ نے وینٹی لیٹرز کے لیے ضروری سازوسامان کی کمی کو نظرانداز کیا ہے، جس سے متاثرہ مریضوں کے لواحقین کی پریشانیوں میں مزید اضافہ ہوگیا ہے۔ روزنامہ دنیا نے سروسز ہسپتال کی انڈیکٹ بک سے انکشاف کیا ہے کہ وینٹی لیٹرز کے لیے ضروری سازوسامان جیسے بریدنگ سرکٹ، ایچ ایم ایس فلٹر، کلوز سیکشن سرکٹ، نیلٹن کیتھڈرل، اور ایل کنڈیکٹر کی فراہمی روک دی گئی ہے۔ انڈیکٹ بک میں واضح طور پر درج ہے کہ یہ سامان کٹ کر دیا گیا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ مریضوں کو ضروری طبی سامان خریدنے کے لیے باہر سے پیسے خرچ کرنے ہوں گے۔ غریب مریضوں کے لواحقین جن کے پاس 10,000 روپے کی قیمت کا سرکٹ کٹ خریدنے کی استطاعت نہیں ہے، انہیں وینٹی لیٹرز کے باوجود اپنے مریضوں کی زندگی بچانے میں دشواری کا سامنا ہے۔ https://www.instagram.com/lahorenewshdofficial/reel/DGOOzdSsOiv/ سروسز ہسپتال کی انتظامیہ اس سنگین مسئلے پر خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ غریب مریضوں کے لواحقین کو نہ صرف بیمار افراد کی دیکھ بھال میں مشکلات پیش آ رہی ہیں بلکہ وہ ہسپتال کی طرف سے فراہم کی جانے والی طبی سہولتوں سے بھی محروم ہیں۔ سروسز ہسپتال کی انڈیکٹ بک میں سامان کی کٹوتیوں کے باوجود انتظامیہ کی طرف سے کوئی وضاحت یا حل فراہم نہیں کیا جا رہا ہے، جس سے مریضوں اور ان کے لواحقین میں غم و غصہ پایا جا رہا ہے۔ اس صورتحال پر سروسز ہسپتال کے ایم ایس ڈاکٹر عابد غوری کا کہنا ہے کہ وینٹی لیٹرز کا تمام سامان ہسپتال میں موجود ہے۔ تاہم، یہ موقف حقیقت سے متصادم ہے، کیونکہ مریضوں کے لواحقین کی جانب سے مسلسل یہ شکایات موصول ہو رہی ہیں کہ ضروری سامان کی فراہمی میں کمی واقع ہو گئی ہے، اور وہ وینٹی لیٹرز کا صحیح استعمال نہیں کر پا رہے ہیں۔ مزمل اسلم نے اس پر طنز کرتے ہوئے کہا کہ سنا تھا پنجاب میں دنیا بھر سے مریض علاج کرانے آتے ہیں، کیا یہ درست ہے؟
پاکستان کے وزیرِ اعظم شہباز شریف نے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس یحییٰ آفریدی سے اہم ملاقات کی جس میں ملک کے موجودہ معاشی اور سکیورٹی چیلنجز پر تفصیلی گفتگو کی گئی۔ وزیرِ اعظم ہاؤس سے بدھ کو جاری ہونے والے بیان کے مطابق، اس ملاقات میں وزیرِ اعظم نے چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کو مختلف عدالتوں میں زیر التوا ٹیکس تنازعات کے حوالے سے آگاہ کیا اور ان مقدمات میں جلد فیصلے کرنے کی درخواست کی تاکہ انصاف کی فراہمی میں تاخیر نہ ہو۔ وزیرِ اعظم شہباز شریف نے چیف جسٹس کو بتایا کہ مختلف عدالتوں میں ٹیکس کے حوالے سے اہم مقدمات زیر التوا ہیں جن کا جلد از جلد فیصلہ ہونا ضروری ہے تاکہ ملک کی معاشی صورتحال کو بہتر بنایا جا سکے۔ وزیرِ اعظم نے اس بات پر زور دیا کہ ان کیسز میں میرٹ کی بنیاد پر فیصلے ہونے چاہئیں تاکہ کاروباری سرگرمیاں متاثر نہ ہوں اور حکومت کو ٹیکس کی وصولیوں میں بھی بہتری آئے۔ چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے وزیرِ اعظم سے ملاقات کے دوران نظامِ انصاف میں بہتری لانے کے حوالے سے تجاویز بھی مانگی۔ انہوں نے کہا کہ عدلیہ میں اصلاحات کی ضرورت ہے تاکہ انصاف کی فراہمی کی رفتار میں تیزی لائی جا سکے اور عوام کا عدلیہ پر اعتماد مزید مضبوط ہو۔ وزیرِ اعظم نے اس موقع پر چیف جسٹس کو یقین دلایا کہ حکومت اس معاملے میں عدلیہ کے ساتھ تعاون کے لیے تیار ہے اور عدلیہ کے اصلاحات کے عمل میں معاونت فراہم کرے گی۔ ملاقات کے دوران وزیرِ اعظم نے لاپتا افراد کے مسئلے پر بھی گفتگو کی اور اس حوالے سے مؤثر اقدامات میں تیزی لانے کی یقین دہانی کروائی۔ وزیرِ اعظم شہباز شریف نے کہا کہ حکومت لاپتا افراد کے معاملے کو سنجیدگی سے لے رہی ہے اور اس مسئلے کا حل تلاش کرنے کے لیے تمام ممکنہ اقدامات کیے جائیں گے تاکہ متاثرہ خاندانوں کو انصاف فراہم کیا جا سکے۔ وزیرِ اعظم نے اس بات پر زور دیا کہ لاپتا افراد کی بازیابی کے لیے تمام اداروں کو یکجا ہو کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ وزیرِ اعظم شہباز شریف اور چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کے درمیان ہونے والی اس اہم ملاقات میں وزیرِ قانون اعظم نذیر تارڑ، وزیر برائے اقتصادی امور احد خان چیمہ، اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان، رجسٹرار سپریم کورٹ محمد سلیم خان اور سیکریٹری لا اینڈ جسٹس کمیشن آف پاکستان تنزیلہ صباحت بھی موجود تھیں۔ اس ملاقات میں وزیرِ اعظم اور چیف جسٹس کے درمیان ہونے والی گفتگو نے ملکی عدلیہ کی اصلاحات اور معاشی چیلنجز کے حل کے لیے اہم اقدامات کی طرف اشارہ کیا ہے۔
پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی نے وکلا کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ الیکشن میں جیتنے والے امیدواروں کو ہرایا گیا، اور اس طرح کے اقدامات ملک میں جمہوری اصولوں کے خلاف ہیں۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ آج شہباز شریف جس مینڈیٹ پر بیٹھے ہیں، وہ درحقیقت کسی اور کا حق ہے۔ اپنی تقریر میں محمود خان اچکزئی نے پاکستان کی وفاقی ساخت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ یہ ملک ایک فیڈریشن ہے، جہاں سب کو برابری کے حقوق حاصل ہونے چاہئیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کسی کی جاگیر نہیں اور یہاں کوئی آقا یا غلام نہیں ہو سکتا۔ "ہمارے بزرگوں نے کہا تھا کہ ون مین ون ووٹ ہونا چاہیے اور پاکستان کو فیڈریشن کی طرز پر چلایا جانا چاہیے، لیکن بدقسمتی سے آج بھی ان اصولوں پر مکمل عملدرآمد نہیں ہو رہا۔" انہوں نے ملک میں لگائی جانے والی پابندیوں اور حکومتی اقدامات پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ فوجی بھائی فوجی جس وقت جی چاہے آئین کو روند دیتے ہیں، پھاڑ دیتے ہیں، لیکن آج تک کسی سے پوچھا نہیں گیا، انہوں نے ہمارے بچوں کو صرف دفعہ 144 کی خلاف ورزی پر قتل کیا ۔ "انتہائی مشکل حالات کے باوجود ہم نے پاکستان کے خلاف نعرے نہیں لگائے، کیونکہ ہم اپنے ملک کے ساتھ کھڑے ہیں،" انہوں نے کہا۔ تاہم، انہوں نے شکایت کی کہ ملک کے اہم اداروں میں مساوی نمائندگی نہیں دی جا رہی۔ پاکستان میں حق حکمرانی کی تقسیم پر بات کرتے ہوئے، انہوں نے کہا کہ اگر ملک کو آگے بڑھانا ہے تو تمام اکائیوں کو برابر کا حصہ دینا ہوگا۔ کہا "پاکستان کی فوج ہماری فوج ہے لیکن حقیقت میں یہ چار اضلاع کی فوج ہے، اگر ہم پوچھیں کہ اس فوج میں بلوچ، سندھی، پشتون اور سرائیکی کا حصہ کہاں ہے تو ہمیں غدار کے القابات دیے جائیں گے، پاکستان کی فوج اور ہر ادارے میں ہمیں حصہ ملنا چاہیے، ہم پاکستان کی ہر خوشی اور غمی میں ہم آپ کے برابر کے شریک ہیں، " انہوں نے کہا اور مطالبہ کیا کہ پاکستان کے ہر ادارے میں تمام قومیتوں کو ان کا جائز حق دیا جائے۔ انہوں نے ملکی سیاست میں اسٹیبلشمنٹ کے کردار پر بھی سوالات اٹھائے اور کہا کہ "ہمیں بتایا گیا تھا کہ اسٹیبلشمنٹ ہمیں دو تہائی اکثریت دلائے گی، مگر حقیقت میں انتخابات کے نتائج کو تبدیل کر دیا گیا۔ یہ عمل جمہوری اصولوں کے خلاف ہے اور اسے بند ہونا چاہیے۔" انہوں نے سوویت یونین کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ "کے جے بی (KGB) کے تجربات ناکام ہوئے، اور ہمیں وہی غلطیاں یہاں نہیں دہرانی چاہئیں۔ اگر پاکستان کو ایک مستحکم اور ترقی یافتہ ملک بنانا ہے، تو حکمرانی میں پنجاب، سندھ، بلوچستان، اور پشتونخوا کے عوام کو مساوی حصہ دینا ہوگا۔ اگر کسی بھی گھر میں اتفاق نہ ہو تو وہاں تنازع کھڑا ہو جاتا ہے، اور یہی اصول ملکوں پر بھی لاگو ہوتا ہے۔"
مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما اور سابق وفاقی وزیر خواجہ سعد رفیق نے کہا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی چیئرمین عمران خان آج اگر جیل میں ہیں تو اس کے ذمہ دار وہ خود ہیں، انہیں کسی سیاسی مخالف نے جیل نہیں بھجوایا۔ لاہور میں اپنے انتخابی حلقے میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے خواجہ سعد رفیق نے 2018 کے انتخابات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس وقت عمران خان نے اسٹیبلشمنٹ کا مہرہ بن کر مسلم لیگ (ن) کے مینڈیٹ پر ڈاکا مارا، جس کے نتیجے میں ملک کو سنگین مسائل میں دھکیل دیا گیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ جھوٹ بول کر ووٹ لینا بھی گناہ ہے اور سوشل میڈیا کے ذریعے عوام کو گمراہ نہیں کیا جا سکتا۔ سعد رفیق نے موجودہ سیاسی حالات پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت عدالتوں میں رسہ کشی جاری ہے اور عمران خان جو ماضی میں اسٹیبلشمنٹ اور جرنیلوں سے مذاکرات کی بات کرتے تھے، آج انہی حالات کا سامنا کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ کسی بھی سیاست دان کو یہ طے کرنا ہوگا کہ سیاست دان کمزور ہے یا نہیں، کیونکہ اسی سوچ سے کوئی نہ کوئی نیا راستہ کھل سکتا ہے۔ انہوں نے پاکستان میں قومی اتحاد پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ملک کی تمام اکائیاں ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہیں اور ہمیں آپس میں اختلافات کے باوجود متحد رہنا ہوگا۔ ان کا کہنا تھا کہ آرمی پبلک اسکول اور قومی تنصیبات پر حملہ کرنے والوں کے ایجنڈے کو کامیاب نہیں ہونے دیا جائے گا۔
وزیر اعلیٰ مریم نواز نے ایک بیان میں دعویٰ کیا ہے کہ عمران خان کے دور حکومت میں مہنگائی 38 فیصد تک پہنچ گئی تھی۔ تاہم، سرکاری اور مستند معاشی اعداد و شمار اس دعوے کی نفی کرتے ہیں اور حقیقت اس کے برعکس نظر آتی ہے۔ مریم نواز نے عمران خان حکومت کو نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ نالائقی اور بے حسی کے انبار لگے تو مہنگائی 38فیصد پر گئی، عوام کا جینا محال ہو گیا، لوگ خودکشیاں کرنے لگ گئے۔ پاکستان میں مہنگائی کی شرح کے دستیاب ڈیٹا کے مطابق، 2020 میں اوسط مہنگائی کی شرح 10.7 فیصد رہی، 2021 میں یہ 9.5 فیصد تھی، اور جب عمران خان کی حکومت کا اختتام اپریل 2022 میں ہوا تو مہنگائی کی شرح تقریباً 12 فیصد کے قریب تھی۔ اس کے بعد جب شہباز شریف کی قیادت میں پی ڈی ایم حکومت بنی، تو مہنگائی میں تیزی سے اضافہ ہوا۔ 2022 کے آخر تک مہنگائی 24.5 فیصد تک پہنچ گئی اور 2023 میں یہ مزید بڑھ کر 38 فیصد کی بلند ترین سطح پر جا پہنچی، جو پاکستان کی تاریخ میں ایک نیا ریکارڈ تھا۔ یہ واضح ہوتا ہے کہ جب عمران خان کی حکومت کا خاتمہ ہوا، تب مہنگائی کی شرح 12 فیصد تھی، لیکن جیسے ہی پی ڈی ایم حکومت آئی، مہنگائی میں تیزی سے اضافہ دیکھنے میں آیا اور 38 فیصد کی سطح کو عبور کر گیا۔ دسمبر 2024 میں یہ شرح کم ہو کر 4.1 فیصد تک آ چکی ہے، لیکن عوام اب بھی مہنگے یوٹیلیٹی بلوں، بلند قیمتوں اور روپے کی بے قدری سے پریشان ہیں۔ وزیردفاع خواجہ آصف نے 3 فروری کو مہنگائی کی شرح کا چارٹ شیئر کیا۔ جس میں واضح طور پر نظر آ رہا ہے کہ شہباز شریف کے دور حکومت میں مہنگائی کی شرح 38 فیصد تھی۔ صحافی احمد وڑائچ نے بھی مریم نواز کے دعوے کی نفی کرتے ہوئے جون 2023 ی خبر کا سکرین شاٹ شیئر کرتے ہوئے کہا 'جولائی 2023 (پی ڈی ایم دور) میں مہنگائی 38فیصد پر گئی، اپریل 2022 میں عمران خان حکومت گئی تو شرح 12فیصد تھی' مریم نواز کا یہ دعویٰ کہ عمران خان کے دور میں مہنگائی 38 فیصد تھی، حقائق کے مطابق غلط ثابت ہوتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مہنگائی میں سب سے زیادہ اضافہ پی ڈی ایم حکومت کے دوران ہوا، اور عمران خان کے دور میں مہنگائی کی شرح ان کے جانے کے وقت 12 فیصد کے لگ بھگ تھی۔

Back
Top