خبریں

معاشرتی مسائل

Threads
0
Messages
0
Threads
0
Messages
0
None

طنز و مزاح

Threads
0
Messages
0
Threads
0
Messages
0
None
آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر کے خواتین کے احترام اور ان کے حقوق سے متعلق بیان پر سوشل میڈیا پر شدید ردعمل سامنے آ رہا ہے۔ سوشل میڈیا صارفیں کی جانب سے تنقید کی جا رہی ہے، جو اسے پی ٹی آئی کی خواتین کے ساتھ ہونے والے سلوک سے جوڑ رہے ہیں۔ ناقدین سوال اٹھا رہے ہیں کہ جب سیاسی کارکن خواتین کو گرفتار کیا گیا، ان کے ساتھ مبینہ طور پر غیر انسانی سلوک برتا گیا اور کئی نے اپنے ساتھ ہونے والے ناروا سلوک کی شکایات کیں، تو اس وقت یہی اصول کہاں تھے؟ آرمی چیف نے اپنے خطاب میں کہا، "چاہے وہ ماں ہو، بیٹی ہو یا بیوی، اسلام نے عورت کو عزت دی، پھر تم ہوتے کون ہو وہ عزت چھیننے والے، Who are you، تمہیں یہ اختیار کس نے دیا، کوئی اسے نہیں چھین سکتا۔" ٹوئٹر (ایکس) اور دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر کئی صارفین آرمی چیف کے بیان کے ساتھ سابقہ واقعات کی تصاویر اور ویڈیوز شیئر کرتےہوئے پچھلے 2 سالوں میں خواتین پر ہوئے مظالم پر اپنے تنقیدی تبصروں کا اظہار کر رہے ہیں۔ تحریک انصاف کے آفیشل اکاؤنٹ سے پیغام میں کہا گیا جناب! ملک کے خلاف کھیلی گئی رجیم چینج آپریشن کی سازش کے بعد آپ کی پُشت پناہی میں جو ظلم اور فسطائیت کی اندوہناک داستانیں رقم ہوءیں اِن کا نشانہ اِس قوم کی مائیں، بہنیں، بیٹیاں بھی بنیں۔ آج آپ کس طرح اپنے سفاک چہرے پر یہ مذہب اور اخلاقیات کا ماسک چڑھا کر دین میں خواتین کے مقام پر بھاشن دے رہے ہیں۔ گزشتہ اڑھائی سال میں عورتوں کو گھسیٹنا، اُنکی چادریں کھینچنا، اُن پر عدت جیسا گھٹیا مقدمہ بنانا، اُنہیں پابندِ سلاسل کرنا،گھروں کا تقدس پامال کرنا، یہ سب آپ کے اِس بیان کے منافی ہیں۔ آپ نے خطوط تو نہیں پڑھے لیکن اب اِس بیان کے بعد سوشل میڈیا پر عوامی ردعمل ضرور دیکھئے گا تاکہ آپ کو معلوم ہوسکے کہ عوام حقائق سے بخوبی واقف ہے۔ حماد اظہر نے کہا آرمی چیف اگر خواتین کی عزت کے بارے جاننا چاہتے ہیں تو ریحانہ ڈار سمیت ان تمام خواتین سے گفتگو کر سکتے ہیں جن پر پولیس اور نامعلوم نے ظلم کیا۔ سعداللہ بلوچ اور شاہ محمود قریشی سے بات کر لیں جن کے گھر کی خواتین کو اغوا کیا۔ اگر کوئی کسر رہ جائے تو اعظم سواتی والا سانحہ بھی موجود ہے۔ شہر بانو نے کہا واقعی اسلام نے بہت عزت دی عورتوں کو۔۔۔ تو وہ کون تھے جنہوں نے عورتوں کو سڑکوں پر گھسیٹا ؟وہ کون تھے جو ان کے بیڈ رومز میں گھسے ؟وہ کون تھے جس نے شہریار أفریدی کو بیٹیوں کی دھمکیاں دیں ؟؟وہ کون تھے جنہوں نے ناحق عورتوں کو قید میں رکھا ؟ صنم جاوید نے کہا خواتین کی عزت پر بھاشن دینے والے منافق کو کوئی بتائے ڈاکٹر یاسمین راشد دو سال سے جیل میں ناحق قید ہیں۔ مہر بانو قریشی نے کہا کوئی شک نہیں، اسلام میں عورت کو علا مقام رتبہ اور عزت دی گئی ہے مگر افسوس ریاستِ پاکستان نے پچھلے دو سال میں جو خواتین کو لے کر حدود پار کی ہیں اس کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ چادر چار دیواری کا تقدس ہوا کرتا تھا آج اس کی پامالی عام ہے۔ ہمارے عدالتی نظام میں عورت کو بیل ملنا لازم ہے پر ڈاکٹر یاسمین آج بھی بے گناہ پابندِ سلاسل ہیں ، 9 مئی کے بعد درجنوں بے گناہ خواتین کو حراست میں لیا گیا ، جھوٹے مقدموں میں مہینوں پنجاب کے جیلوں کی سیر کرائی گئی ، گرمی میں پریزن وینز میں گھنٹوں بٹھایا گیا، سڑکوں پر گھسیٹا گیا، سر سے چادر تک چھینی گئی، لوگوں کی بہن، بہو، بیٹیوں کو اغوا کیا گیا یا دھمکیاں دی گئی۔ کیا تحریک اے انصاف سے منسلک خواتین کی عزت عزت نہیں؟ کیا ہم اس قوم کی بیٹیاں نہیں؟ یاد رہے، اسلام میں خواتین کی عزت کو لے کر کوئی دوہرا معیار نہیں شہباز گل نے کہا پہلے ڈی جی آئی ایس پی آر غلط بیانی کرتے تھے۔ آج ایک لیول آپ کیا گیا ہے۔ آج وہی زمہ دادی آرمی چیف نے پوری کی ہے۔ ماشاللہ ترقی ہو رہی ہے۔ صحافی مریم نواز خان نے کہا اپنے شہریوں کو گمراہ گروہ کہنا، عورتوں کی عزتیں پامال ہونے کو ملک میں new normal بنا کر ان کی حرمت پر خطبہ دینا، انگریزی کے تین الفاظ سے قوم کو نئی بتی کے پیچھے لگانا، بدقسمت ملک پر نافذ ہستیوں کا ظرف بس اتنا ہے۔ رائے ثاقب نے لکھا آج آرمی چیف کی گفتگو کا مختصر کلپ سنا: بہت اچھا لگا سن کر، ویسے تو یہ کام سیاسی قیادت کا تھا لیکن پھر بھی آج خواتین کے حقوق کی بات ہوئی، اب دیکھیے گا۔۔ ڈاکٹر یاسمین راشد، عائشہ بھٹہ، خدیجہ شاہ، صنم جاوید اور وہ سینکڑوں خواتین جن کے گھروں کے دروازے توڑے گئے،سب کو انصاف ملے گا۔ آپ دیکھیے گا۔۔ صدیق جان نے کہا 9 مئی کے بعد جن دس ہزار بے گناہوں کو اٹھایا گیا ،کبھی ان کی ماؤں ،بہنوں اور بیٹیوں سے جا کر پوچھیں کہ وہ کس قیامت سے گزریں ؟5 اکتوبر اور 26 نومبر والوں کی فیملیز سے بھی جا کر پوچھ لیں کہ انہوں نے کس جبر کا سامنا کیا ہے ؟ عمران ریاض خان نے کہا آج آرمی چیف نے عورتوں کی حرمت پر ایک بیان دیا اور پورے پاکستان نے خواتین کی بے حرمتی کی ویڈیوز اور ثبوتوں کے انبار لگا دیئے۔ یہی ہے سوشل میڈیا اور اسکی طاقت جسے کچلنے کی کوشش ہے۔ رضوان غلزئی نے اپنے پیغام میں لکھا سنگجانی جلسے میں ایک کارکن نے اپنی والدہ کے زخمی چہرے کی تصویر دکھاتے ہوئے بتایا کہ سیکیورٹی اہلکار دروازے توڑ کر گھر میں داخل ہوئے۔ والدہ کی جانب سے روکنے پر نقاب پوشوں نے بندوق کا بٹ مار کر اسکی والدہ کا جبڑہ توڑ دیا۔ ان نقاب پوشوں کو یہ اختیار کس نے دیا تھا؟ نجم باجوہ نے ٹویٹ کیا کہ ایک چھاپے کے دوران ایک سیاسی شخصیت کی 16 سال کی بیٹی کو نازیبہ جگہوں پر چھیڑا گیا وہ بچی بیچاری رو رو کے ماں کو بتاتی رہی کہ پولیس والوں نے کیا کیا آج تک اس صدمے کے اثرات اسکی ذہنی صحت پر ہیں ۔ پولیس والوں کو درندہ کس نے بنایا؟ کیوں ان خواتین کی عزتیں نوچی گئیں؟ ہے کوئی جواب؟ عمران ریاض خان نے ایک اور پیغام میں کہا آئی ایس آئی کا آفیسر دس مئی 2023 کو پولیس کی بھاری نفری کے ساتھ آیا اور میرے گھر چھاپے کے دوران خواتین کو خوفزدہ کرنے کے لیے انکے سامنے بار بار پستول کا چیمبر کھینچتا اور چھوڑتا رہا۔ انہیں دھمکیاں دیں اور بچوں تک کو حراساں کیا؟ عمران ریاض نے مزید کہا عدت کا کیس بنانے والوں سے پوچھنا چاہیئے کہ Who are you? زبیر علی خان نے کہا بنگال کی مائیں بہنیں بھی تمہارے کرتوتوں کی گواہ ہیں۔
مالاکنڈ یونیورسٹی میں جنسی ہراسانی کا ایک بڑا اسکینڈل منظرعام پر آیا ہے، جس کے نتیجے میں مطالعہ پاکستان کے پروفیسر عبدالحسیب کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ لیویز ذرائع کے مطابق، تھانہ بائزئی میں ایک طالبہ کی شکایت پر پروفیسر کے خلاف کارروائی کی گئی۔ لیویز حکام کا کہنا ہے کہ پروفیسر کو 18 فروری کو عدالت میں پیش کیا جائے گا، اور ان کے خلاف متعلقہ دفعات کے تحت مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ ملزم کے قبضے سے بڑی تعداد میں طالبات کی ویڈیوز اور تصاویر بھی برآمد ہوئی ہیں۔ ذرائع کے مطابق، یونیورسٹی اور ضلعی انتظامیہ نے اسکینڈل کو دبانے کی کوشش کی، مگر اس پر ابھی تک کوئی باضابطہ ردعمل سامنے نہیں آیا۔ مزید سنسنی خیز انکشافات کی توقع کی جا رہی ہے۔ وزیراعلیٰ کی ہدایات پر چیف سیکرٹری کی قیادت میں واقعے کی تحقیقات کے لیے انکوائری کمیٹی قائم کر دی گئی ہے۔
چیف آف آرمی سٹاف جنرل سید عاصم منیر کی طلباء سے خصوصی بات چیت کی ویڈیو منظرِ عام پر آگئی ہے، جس میں انہوں نے پاکستان بھر کی مختلف جامعات سے آنے والے طلباء سے ملاقات کی اور ان کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے انہیں 'پاکستانیت' کو اپنانے کی اہمیت پر زور دیا۔ آرمی چیف نے کہا کہ پاکستانی عوام، خاص طور پر نوجوانوں کا پاک فوج سے گہرا اور مضبوط رشتہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملک دشمن عناصر کی کوششیں ہمیشہ ناکام ہوئی ہیں، جو فوج اور عوام کے درمیان خلیج ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں، اور یہ کوششیں آئندہ بھی ناکام رہیں گی، انشاءاللہ۔ جنرل عاصم منیر نے مزید کہا کہ ہمیں اپنے مذہب، ثقافت اور روایات پر فخر ہے، اور پاکستان کے آئین کا آغاز "اِنَّ الحکم اِلَّاللّٰہ" (حاکمیت صرف اللّٰہ کی ہے) سے ہوتا ہے۔ انہوں نے فتنہ الخوارج کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ یہ عناصر کبھی بھی اپنی فرسودہ سوچ کو ملک پر مسلط نہیں کرنے پائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے لوگ دہشت گردوں کے خلاف مضبوط دیوار کی طرح کھڑے ہیں۔ آرمی چیف نے نوجوان طلباء سے کہا کہ وہ 'پاکستانیت' کو اپنا کر اپنی تعلیمی سرگرمیوں میں بہترین کارکردگی دکھائیں اور ایسی مہارتیں حاصل کریں جو ملک کی ترقی میں مثبت کردار ادا کر سکیں۔ آئی ایس پی آر کے مطابق، آرمی چیف نے یونیورسٹیوں اور کالجوں کے طلباء کے نمائندہ گروپ سے خطاب کے دوران ان کی حوصلہ افزائی کی اور انہیں کہا کہ وہ تعلیمی میدان میں بہترین کارکردگی کی کوشش کریں اور ایسی مہارتیں حاصل کریں جو انہیں ملک کی ترقی میں مددگار ثابت ہوں۔ انہوں نے پاکستان کو درپیش بیرونی خطرات، خاص طور پر سرحد پار دہشت گردی کے خطرات پر بھی اپنی بات رکھی۔ آرمی چیف نے نوجوانوں کی توانائی، تخلیقی صلاحیتوں اور تعمیری خیالات کو سراہا اور کہا کہ وہ پاکستان کے مستقبل کے رہنما ہیں۔ جنرل عاصم منیر نے پاک فوج کے ملک کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کے تحفظ میں کردار کو اجاگر کیا اور دہشت گردی کے خلاف قومی جدوجہد میں عوام کی قربانیوں کو خراج تحسین پیش کیا۔ انہوں نے مسلح افواج اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے عزم کو بھی سراہا۔
یوٹیلیٹی اسٹورز کارپوریشن میں تنظیم نو کا آغاز کرتے ہوئے پہلے مرحلے میں تین ہزار کے قریب ملازمین کو فارغ کر دیا گیا ہے۔ احکامات غیر متوقع طور پر چھٹی والے دن جاری کیے گئے، جس پر متاثرہ ملازمین میں شدید تشویش پائی جا رہی ہے۔ پہلے مرحلے میں تمام ڈیلی ویجز ملازمین کو برطرف کر دیا گیا، جبکہ دوسرے مرحلے میں کنٹریکٹ پر تعینات ہزاروں ملازمین کو بھی فارغ کیے جانے کا امکان ہے۔ بیشتر ملازمین گزشتہ دس سال سے کارپوریشن میں خدمات انجام دے رہے تھے، تاہم حکومتی پالیسی کے باعث ان کے روزگار کو شدید خطرات لاحق ہو گئے ہیں۔ یہ فیصلہ ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب وفاقی حکومت نے یوٹیلیٹی اسٹورز کارپوریشن کے آپریشنز کو مرحلہ وار بند کرنے کی حکمت عملی تیار کر رکھی ہے۔ 22 جنوری کو وفاقی کابینہ نے اس حوالے سے ایک کمیٹی تشکیل دی تھی، جس کا مقصد یوٹیلیٹی اسٹورز کو مکمل طور پر ختم کرنے کی تجاویز مرتب کرنا تھا۔ کمیٹی کی سربراہی وفاقی وزیر صنعت و پیداوار کر رہے ہیں، جبکہ اس میں وزیر مملکت خزانہ و ریونیو، وزیر مملکت آئی ٹی، وفاقی سیکریٹری خزانہ، سیکریٹری صنعت و پیداوار، سیکریٹری نجکاری اور سیکریٹری بینظیر انکم سپورٹ پروگرام شامل ہیں۔ کمیٹی کا بنیادی کام یوٹیلیٹی اسٹورز کے مستقبل پر حتمی فیصلہ کرنا اور حکومت کو اس حوالے سے سفارشات پیش کرنا ہے۔ گزشتہ برس حکومت نے یوٹیلیٹی اسٹورز کارپوریشن کو ختم کرنے کا اصولی فیصلہ کیا تھا۔ اس دوران وزیر اعظم شہباز شریف نے اس حوالے سے مختلف تجاویز طلب کی تھیں، جبکہ حکومت نے یوٹیلیٹی اسٹورز کے لیے مختص 50 ارب روپے کی سبسڈی بھی بند کر دی تھی، جس کے نتیجے میں کارپوریشن کے مالی معاملات شدید متاثر ہوئے۔ وزیراعظم کی زیر صدارت ایک اجلاس میں کمیٹی نے اپنی سفارشات پیش کی تھیں، جن میں انتظامی اخراجات کو کم کرنے اور ریاستی مشینری کو سادہ بنانے کے لیے اقدامات تجویز کیے گئے تھے۔ ان اقدامات کے تحت وفاقی حکومت نے پانچ مختلف وزارتوں کے 28 محکمے ختم کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ ان پانچ وزارتوں میں کشمیر افیئرز اور گلگت بلتستان، اسٹیٹس اینڈ فرنٹیئر ریجنز، انفارمیشن ٹیکنالوجی اینڈ ٹیلی کمیونیکیشن، انڈسٹریز اینڈ پروڈکشن، اور نیشنل ہیلتھ سروسز شامل ہیں۔ یوٹیلیٹی اسٹورز کے ملازمین کی بڑی تعداد اچانک ملازمت سے برطرف کیے جانے پر شدید پریشان ہے۔ خاص طور پر وہ افراد جو کئی سالوں سے کارپوریشن میں کام کر رہے تھے، انہیں ایک ہی دن میں نوکری سے نکال دیا گیا۔ مزدور تنظیموں اور متاثرہ ملازمین نے اس فیصلے پر احتجاج کا عندیہ دیا ہے اور حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ انہیں متبادل روزگار فراہم کیا جائے یا ان کے لیے مناسب مالی پیکیج کا اعلان کیا جائے۔ یوٹیلیٹی اسٹورز کی بندش سے عوام پر بھی اثرات مرتب ہونے کا امکان ہے، کیونکہ ملک کے کئی علاقوں میں یہ اسٹورز سستی اشیائے خورونوش کی فراہمی کا اہم ذریعہ ہیں۔ اگر حکومت اس نظام کو مکمل طور پر ختم کرتی ہے، تو عام صارفین کو مارکیٹ کی مہنگی قیمتوں پر انحصار کرنا پڑے گا، جو پہلے ہی مہنگائی کی لپیٹ میں ہیں۔ ذرائع کے مطابق حکومت یوٹیلیٹی اسٹورز کی جگہ متبادل ریلیف پیکیج متعارف کرانے پر غور کر رہی ہے، جس کے تحت بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام یا کسی اور امدادی اسکیم کے ذریعے کم آمدنی والے افراد کو سبسڈی فراہم کی جا سکتی ہے۔ تاہم، اس حوالے سے حتمی فیصلہ تاحال سامنے نہیں آیا۔
جب سیاسی مخالفین ایسے دشمن بن جائیں جنہیں بے رحمی سے کچلنا لازم ہو، تو جمہوریت کا وجود ختم ہو جاتا ہے۔ اسد عمر کا چارٹر آف ڈیموکریسی 2.0 کے عنوان سے آرٹیکل پاکستان ایک کثیر النسلی ملک ہے جو جمہوری عمل کے نتیجے میں وجود میں آیا۔ یہ تبھی ترقی کر سکتا ہے جب یہاں ایک مضبوط آئینی جمہوریت ہو۔ آج پاکستان کی صورتحال دیکھیں تو واضح ہو جاتا ہے کہ ہم نہ صرف اس مقصد سے بہت دور ہیں بلکہ وقت کے ساتھ مزید پیچھے جا رہے ہیں۔ اگر ہم نے فوری طور پر درست سمت میں قدم نہ اٹھایا تو قومی مفادات کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے۔ اگرچہ ایسی صورتحال سے نکلنا ممکن ہو سکتا ہے، مگر یہ عمل طویل اور مہنگا ثابت ہوگا۔ ہم پہلے ہی دنیا اور اپنے خطے کے دیگر ممالک سے پیچھے رہ گئے ہیں اور مزید تاخیر یا نقصان کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ ہماری بہتری اور بحالی کے لیے کچھ بنیادی اصولوں کی پابندی ضروری ہے۔ جدید کثیر النسلی معاشرے میں، قوم کو ایک متفقہ معاہدے کی ضرورت ہوتی ہے جو یہ طے کرے کہ ہمارا اجتماعی نظام کیسے چلے گا اور ریاست و شہریوں کے حقوق و فرائض کیا ہوں گے۔ یہ معاہدہ ایک متفقہ آئین کی صورت میں طے ہوتا ہے جو عوام کے منتخب نمائندے بناتے اور منظور کرتے ہیں۔ جب ہم آئین سے ہٹ کر چلنے کی کوشش کرتے ہیں تو شہریوں اور ریاست کے درمیان رشتہ کمزور ہو جاتا ہے کیونکہ ہم ایسے اصولوں کے تحت حکمرانی کی کوشش کرتے ہیں جن پر عوام کی رضا مندی نہیں ہوتی۔ اسی طرح، حکمرانوں کا انتخاب عوام کی مرضی کے مطابق ہونا چاہیے۔ جب غیر آئینی طریقے اختیار کیے جاتے ہیں اور عوام کی حقیقی پسند کے برعکس نمائندے مسلط کیے جاتے ہیں، تو شہریوں اور ریاست کے درمیان اعتماد ٹوٹ جاتا ہے، جو کامیابی کے لیے ضروری ہے۔ جب عوام کو ان کی مرضی کے خلاف حکمرانی دی جاتی ہے تو وہ احتجاج کرتے ہیں، جس کے جواب میں ریاستی ادارے جبر کا سہارا لیتے ہیں، یوں یہ فاصلہ مزید بڑھ جاتا ہے۔ اس طرح کا چکر جاری رہا تو ریاست کے بنیادی ڈھانچے کو سنگین خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔ آج ہم خود کو اسی خطرناک چکر میں پھنسا ہوا دیکھ رہے ہیں۔ ایک آئینی جمہوریت تبھی کامیاب ہو سکتی ہے جب ایگزیکٹو (انتظامیہ) پر چیک اینڈ بیلنس موجود ہو۔ ایک غیر جانبدار اور آزاد عدلیہ کامیاب جمہوریت کے لیے لازمی ہے تاکہ وہ شہریوں کے حقوق کا تحفظ کرے اور طاقتور طبقے کی خواہشات کی تکمیل کا ذریعہ نہ بنے۔ بدقسمتی سے، ہماری سیاسی قیادت بار بار سیاسی تنازعات کو پارلیمنٹ میں حل کرنے میں ناکام رہی ہے۔ نتیجتاً، تمام پیچیدہ سیاسی معاملات عدالتوں میں لے جائے جاتے ہیں، جس سے عدلیہ کو سیاست میں ملوث کر دیا جاتا ہے اور عدالتی فیصلے بھی سیاسی بنیادوں پر تقسیم نظر آتے ہیں۔ مزید یہ کہ، بار بار فوجی مداخلت اور اسٹیبلشمنٹ کی عدالتی فیصلوں پر اثر انداز ہونے کی خواہش نے عدلیہ کو مزید کمزور کیا ہے۔ ایک فعال جمہوریت کے لیے آزادیٔ اظہار بھی بنیادی ضرورت ہے۔ 2000ء کی دہائی کے اوائل میں میڈیا کو کسی حد تک آزادی ملی تھی، لیکن حالیہ برسوں میں یہ آزادی بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ سوشل میڈیا پر آزادیٔ اظہار اور جھوٹی خبروں و بہتان تراشی کے درمیان توازن پیدا کرنا ایک چیلنج بن چکا ہے۔ ہم ایک طرف حقیقی آزادیٔ اظہار کو دبانے میں مصروف ہیں تو دوسری جانب جھوٹی خبروں اور کردار کشی کو روکنے میں ناکام نظر آتے ہیں۔ موجودہ صورتحال کی ایک بڑی وجہ سیاسی جماعتوں کے درمیان تمام سیاسی روایات کا مکمل خاتمہ ہے۔ جمہوری مقابلے کے بجائے، سیاست اب مخالفین کو مکمل طور پر ختم کرنے کی جنگ بن چکی ہے۔ ایک جائز جمہوری مقابلے سے ہم اس نہج پر پہنچ چکے ہیں جہاں سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کو مکمل تباہ کرنے کے درپے ہیں۔جب ہم سیاسی حریفوں کو دشمن سمجھنے لگتے ہیں، جنہیں ہر قیمت پر کچلنا ضروری ہو، تو جمہوریت کا نظام نہیں چل سکتا۔ تمام سیاسی مکالمہ ختم ہو چکا ہے، اور پارلیمان اب وہ فورم نہیں رہا جہاں سیاسی اختلافات کو حل کر کے اتفاقِ رائے پیدا کیا جا سکے۔ اس سیاسی انتشار نے نہ صرف جمہوری عمل کو نقصان پہنچایا ہے بلکہ اس نے فوجی اسٹیبلشمنٹ کو بھی سیاست میں مداخلت کا موقع فراہم کر دیا ہے، جس کی وجہ سے سیاسی عمل اکثر مکمل طور پر ان کے کنٹرول میں چلا جاتا ہے یہ صورتحال مزید نہیں چل سکتی۔ تمام لوگ جو آئین اور عوام کی رائے کی بالادستی پر یقین رکھتے ہیں، وہ ملکی سیاسی قیادت کی طرف دیکھ رہے ہیں کہ وہ اس دلدل سے نکلنے کا راستہ نکالے۔ جب تک فوجی اسٹیبلشمنٹ بھی اس حل کو قبول نہ کرے، کوئی مستقل حل نہیں نکل سکتا، لیکن قیادت کی ذمہ داری سیاستدانوں پر ہے۔ انہیں تعطل ختم کر کے بیٹھنا ہوگا اور ایک نیا چارٹر آف ڈیموکریسی ترتیب دینا ہوگا، جو ہماری جمہوریت کو لاحق تمام بنیادی مسائل پر بات کرے اور سیاسی تنازعات کو حل کرنے کے لیے اتفاقِ رائے پیدا کرے۔ موجودہ بحران سے نکلنے کے لیے ضروری ہے کہ سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کے ساتھ تعلقات کے نئے اصول طے کریں اور خاص طور پر احتساب کے معاملے پر اتفاقِ رائے پیدا کریں۔ اس کے ساتھ ہی، فوج کو سیاست سے مستقل طور پر دور رکھنے کے لیے عملی اقدامات کیے جائیں تاکہ جمہوری نظام کسی بیرونی مداخلت کے بغیر چل سکے۔ اس سلسلے میں 26ویں آئینی ترمیم کے اثرات کا بھی تفصیلی جائزہ لیا جانا چاہیے تاکہ عدلیہ کی آزادی پر کسی قسم کی ضرب نہ لگے۔ اسی طرح، اظہارِ رائے کی آزادی کو یقینی بنانا ہوگا، جس میں نہ صرف میڈیا اور عوام کو آزادی حاصل ہو بلکہ سوشل میڈیا پر جھوٹی خبروں اور بہتان تراشی کے خلاف بھی متوازن قانون سازی کی ضرورت ہے۔ فوجی عدالتوں کے اختیارات اور ان کے دائرہ کار پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے تاکہ قانون کی حکمرانی کو یقینی بنایا جا سکے اور ان عدالتوں کا استعمال صرف مخصوص حالات تک محدود رہے۔ مزید برآں، سیاسی قیدیوں کے معاملات اور سیاسی بنیادوں پر بنائے گئے مقدمات کے تصفیے کے لیے ایک شفاف طریقہ کار وضع کرنا ہوگا تاکہ عدلیہ پر عوام کا اعتماد بحال ہو سکے۔ الیکشن کمیشن کی غیرجانبدار تشکیل اور آئندہ انتخابات کی شفافیت بھی ایک بڑا مسئلہ ہے، جس پر تمام جماعتوں کو متفق ہونا ہوگا تاکہ انتخابات پر عوام کا اعتماد بحال ہو سکے۔ اس کے ساتھ ہی، 9 مئی اور 26 نومبر کے واقعات کی غیر جانبدارانہ اور شفاف تحقیقات کے لیے تمام فریقین کو متفقہ طریقہ کار اپنانا ہوگا، تاکہ کسی فریق کے ساتھ زیادتی نہ ہو اور انصاف کے تقاضے پورے کیے جا سکیں۔ جمہوریت کی جڑوں کو مزید مضبوط بنانے کے لیے مقامی حکومتوں کے نظام کو آئینی تحفظ دینا ہوگا تاکہ عوام کو نچلی سطح پر فیصلہ سازی میں حقیقی شرکت حاصل ہو۔ اسی طرح، مشترکہ مفادات کونسل (CCI) کے کردار کو مزید مؤثر بنانے کی ضرورت ہے تاکہ وفاق اور صوبوں کے درمیان بہتر ہم آہنگی پیدا کی جا سکے اور 18ویں آئینی ترمیم کے بعد درپیش مسائل کو بہتر انداز میں حل کیا جا سکے۔ بلوچستان میں عوامی مسائل کو سیکیورٹی اقدامات کے بجائے سیاسی اور انتظامی بنیادوں پر حل کرنا ہوگا، تاکہ وہاں کے عوام کا احساسِ محرومی کم ہو اور وہ قومی دھارے میں شامل ہوں۔ اسی طرح، فاٹا کے انضمام کے بعد وہاں کیے گئے وعدوں پر عمل درآمد کا مکمل جائزہ لینا ضروری ہے تاکہ ان علاقوں کے عوام کو بھی قومی ترقی میں برابر کا حصہ مل سکے۔ آخر میں، گلگت بلتستان کے عوام کو مزید اختیارات دینا ہوں گے اور ان کے معاملات میں انہیں زیادہ شمولیت دینی ہوگی تاکہ وہ اپنے فیصلے خود کر سکیں اور اپنے مستقبل پر اختیار حاصل کر سکیں۔ ان تمام نکات پر قومی سطح پر اتفاقِ رائے پیدا کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے، کیونکہ اگر آج بھی ہم نے اپنی ذمہ داری نہ نبھائی تو ملکی بقا کو درپیش خطرات مزید سنگین ہو سکتے ہیں۔ یہ صرف چند تجاویز ہیں جو قومی سیاسی اتفاقِ رائے کی متقاضی ہیں۔ جب سیاسی جماعتیں بیٹھیں گی تو وہ ان میں کمی بیشی کر سکتی ہیں، اور کچھ فوری حل طلب مسائل کو پہلے حل کر کے باقی کو بعد میں حل کرنے کا فیصلہ کر سکتی ہیں۔ مجھے معلوم ہے کہ زیادہ تر لوگ کہیں گے کہ یہ سب صرف ایک خواہش ہے جو کبھی حقیقت نہیں بن سکتی۔ لیکن میں صرف اتنا کہوں گا کہ اگر ہم نے مل کر اس پر عمل کرنے کی ہمت نہ کی تو ہم ٹائیٹینک کی طرح برفانی تودے کی طرف جا رہے ہیں۔ پاکستان کے 25 کروڑ عوام کی خاطر ہمیں اپنی خودغرضی، انا اور محدود سوچ کو ترک کرنا ہوگا اور قوم کی توقعات پر پورا اترنا ہوگا۔ اگر ہم ایسا کر سکے تو یہ قوم ارشد ندیم کے نیزے کی طرح بلند ہو سکتی ہے، جسے دنیا نے حیرت اور تعریف کے ساتھ دیکھا تھا۔
پاکستان نے عالمی سطح پر باسمتی چاول کی ملکیت کے تنازع میں ایک بڑی کامیابی حاصل کر لی ہے، جس میں بھارت کو واضح شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا نے باضابطہ طور پر باسمتی کو پاکستانی پراڈکٹ تسلیم کر لیا ہے، جبکہ یورپی یونین کی جانب سے بھی اسی قسم کے فیصلے کی توقع کی جا رہی ہے۔ پاکستان کے باسمتی چاول کی برتری کو تسلیم کرتے ہوئے آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ نے بھارت کے دعوے کو یکسر مسترد کر دیا ہے۔ تاریخی حوالہ جات اور بین الاقوامی تجارتی ماہرین کے مطابق، باسمتی چاول کی اصل جائے پیدائش پاکستان کے ضلع حافظ آباد میں ہے۔ بھارت کی جانب سے پاکستان کے حق کو چیلنج کرنے کی کوششیں ناکام ہو چکی ہیں، جبکہ عالمی تجارتی ماہرین کی تحقیقات نے واضح کر دیا ہے کہ پاکستان ہی باسمتی چاول کا اصل پیداواری ملک ہے۔ پاکستان کا باسمتی چاول اپنی منفرد خوشبو، اعلیٰ معیار اور مناسب قیمتوں کی وجہ سے دنیا بھر میں مقبول ہے۔ پاکستان کی چاول برآمدات 4 ارب ڈالر تک پہنچ چکی ہیں، جس سے پاکستان نے 27 ارب ڈالر کے عالمی چاولی منڈی میں اپنی مضبوط حیثیت بنا لی ہے۔ پاکستان کے بڑھتے ہوئے برآمدی حجم سے پریشان ہو کر بھارت نے باسمتی چاول کی تجارت پر کنٹرول حاصل کرنے کی متعدد کوششیں کیں، مگر یہ اقدامات الٹے بھارت پر ہی بھاری پڑ گئے۔ چاول برآمد کرنے والے تاجر چوہدری تنویر کے مطابق، بھارت اصل باسمتی چاول پیدا ہی نہیں کرتا بلکہ پاکستان کے باسمتی چاول کو دبئی میں بھارتی برانڈ کے نام سے دوبارہ پیک کر کے عالمی منڈی میں فروخت کرتا ہے۔ بھارت کے دعووں کو مزید کمزور کرنے والے تاریخی شواہد کے مطابق، 1965 سے پہلے بھارت نے ایک دانہ باسمتی بھی برآمد نہیں کیا تھا۔ اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن (FAO) کو دیے گئے ڈیٹا کے مطابق، 1960 کی دہائی میں پاکستان پہلے ہی یورپ اور خلیجی ممالک کو باسمتی چاول برآمد کر رہا تھا، جبکہ بھارت اس تجارت میں موجود ہی نہیں تھا۔ تجارتی ماہر شمس الاسلام کا کہنا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان باسمتی چاول کی ملکیت پر یورپی یونین میں جاری تنازعہ اگرچہ تاخیر کا شکار ہوا ہے، تاہم بین الاقوامی دانشورانہ املاک (Intellectual Property) کے قوانین کے تحت اصل پیداواری ملک کو ہی جغرافیائی شناخت (GI) کا حق حاصل ہوتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ بھارت کے اعتراضات بے بنیاد ہیں اور جی آئی سرٹیفکیشن پاکستان کا حق ہے۔ عالمی تجارت میں جغرافیائی شناخت (GI) کے حقوق کی بڑھتی ہوئی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے، باسمتی چاول کی ملکیت کا تحفظ پاکستان کے لیے نہ صرف معاشی بلکہ اسٹریٹجک طور پر بھی ایک اہم سنگ میل ثابت ہوگا۔ اس کامیابی سے پاکستان کو عالمی منڈی میں اپنی برآمدات مزید بڑھانے اور بھارتی چالاکیوں کو روکنے کا موقع ملے گا۔
خیبر پختونخوا حکومت نے تعلیمی شعبے میں اساتذہ کی کمی کو پورا کرنے کے لیے محکمہ تعلیم میں بھرتیوں کا فیصلہ کیا ہے۔ اس فیصلے کے تحت صوبے بھر میں 16 ہزار 247 نئے اساتذہ بھرتی کیے جائیں گے۔ محکمہ تعلیم خیبر پختونخوا کا کہنا ہے کہ یہ بھرتیاں معیاری تعلیم کے فروغ کے لیے کی جا رہی ہیں، تاکہ سرکاری اسکولوں میں طلبہ کو معیاری تعلیمی سہولیات فراہم کی جا سکیں۔ اس اقدام کا ایک اور اہم مقصد صوبے کے نوجوانوں کے لیے روزگار کے مواقع پیدا کرنا بھی ہے، جو کہ بڑھتی ہوئی بے روزگاری کے پیش نظر ایک مثبت پیش رفت سمجھی جا رہی ہے۔ دوسری جانب خیبر پختونخوا میں گورنر فیصل کریم کنڈی نے ملازمین برطرفی بل 2025 کو مسترد کر دیا ہے۔ ان کا مؤقف ہے کہ صوبائی حکومت کی جانب سے پیش کیا گیا یہ بل بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے اور اس کے تحت کئی سرکاری ملازمین کو ان کے قانونی حقوق سے محروم کیا جا رہا ہے۔ گورنر نے واضح کیا کہ الیکشن کمیشن کی اجازت سے بھرتی ہونے والے ملازمین کو اس بل کے دائرہ کار سے باہر رکھا جانا چاہیے۔ ان کے مطابق، بل کے تحت ملازمین کو اپیل کے حق سے محروم کرنا آئین کے آرٹیکل 10 اے کی کھلی خلاف ورزی ہے، جس کے تحت ہر شہری کو منصفانہ ٹرائل اور صفائی پیش کرنے کا حق حاصل ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ماضی میں کی گئی قانونی بھرتیوں کو کالعدم قرار دینا غیر آئینی اقدام ہوگا، جو نہ صرف ملازمین کے حقوق سلب کرنے کے مترادف ہوگا بلکہ اس سے صوبائی حکومت کو عدالتی چیلنجز کا بھی سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ گورنر نے صوبائی حکومت کو تجویز دی ہے کہ وہ اس بل پر نظرثانی کرے تاکہ کسی بھی قانونی پیچیدگی یا عدالتی کارروائی سے بچا جا سکے۔
مصطفیٰ اغوا کیس میں اہم موڑ سامنے آیا ہے، پولیس کو ایک جلی ہوئی گاڑی ملی ہے جس میں ایک لاش بھی موجود تھی۔ دوسری جانب، کیس کے مرکزی ملزم ارمغان سے تفتیش کا دائرہ مزید وسیع کر دیا گیا ہے۔ ایس ایچ او دھوراجی کے مطابق، بلوچستان کے شہر حب کے علاقے دھوراجی میں ایک گاڑی جلی ہوئی حالت میں ملی ہے۔ پولیس حکام کا کہنا ہے کہ یہ گاڑی مصطفیٰ کی ہے یا کسی اور کی، اس کی تصدیق کے لیے تحقیقات جاری ہیں۔ گاڑی کے اندر سے ایک مکمل طور پر جلی ہوئی لاش بھی برآمد ہوئی، جسے فوری طور پر سردخانے منتقل کر دیا گیا ہے۔ لاش کی شناخت کے لیے فرانزک ٹیسٹ کیے جا رہے ہیں تاکہ یہ معلوم ہو سکے کہ آیا یہ مصطفیٰ عامر کی لاش ہے یا کسی اور کی۔ واضح رہے کہ مصطفیٰ نامی نوجوان 11 جنوری 2025 کو اغوا ہوا تھا، جس کے بعد پولیس اور دیگر ادارے کیس کی تحقیقات میں مصروف تھے۔ دوسری جانب، اینٹی وائلنٹ کرائم سیل (AVCC) پولیس نے گزشتہ روز کیس کے مرکزی ملزم ارمغان کے ریمانڈ حاصل کرنے کی تیاری مکمل کر لی۔ پولیس نے سندھ ہائیکورٹ کے 2 رکنی بینچ سے ملزم کی ریمانڈ کی استدعا کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ پولیس حکام کے مطابق، ملزم ارمغان کے بنگلے سے مصطفیٰ عامر کا موبائل فون برآمد ہوا تھا، جو اس کیس میں ایک اہم ثبوت سمجھا جا رہا ہے۔ مزید یہ کہ ارمغان کو جب گرفتار کیا گیا تو وہ نشے کی حالت میں تھا اور تفتیش کے دوران متضاد بیانات دے رہا تھا۔ تاہم، مغوی مصطفیٰ عامر کی گاڑی تاحال برآمد نہیں کی جا سکی۔ اس سے ایک روز قبل انسداد دہشت گردی عدالت میں مصطفیٰ اغوا کیس کی سماعت ہوئی تھی، جہاں پولیس نے ملزم ارمغان کے جسمانی ریمانڈ کی درخواست دائر کی تھی۔ تاہم، عدالت نے پولیس کی استدعا ایک مرتبہ پھر مسترد کر دی اور واقعے کی مکمل تحقیقات کے لیے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) تشکیل دینے کا حکم دے دیا۔ عدالتی احکامات کے تحت، گرفتار ملزم ارمغان کو 10 فروری 2025 کو جیل بھیج دیا گیا تھا۔ پولیس نے مؤقف اختیار کیا تھا کہ ملزم کے گھر سے غیر قانونی اسلحہ برآمد ہوا ہے، جس کی علیحدہ تحقیقات کی جا رہی ہیں۔
شیخوپورہ میں ڈپٹی کمشنر کی جانب سے درجہ چہارم کے سرکاری ملازم پر مبینہ تشدد کا واقعہ، رمضان راشن پروگرام کے دوران غصے میں آکر ڈی سی نے ملازم کو سرِعام تھپڑ مارے، گھونسے اور ٹھڈے رسید کیے، اور بعد ازاں پولیس کو گرفتار کرنے کا بھی حکم دے دیا۔ یہ واقعہ رمضان راشن پروگرام کے تحت مستحقین کو راشن کی تقسیم کے دوران پیش آیا۔ اطلاعات کے مطابق، ڈپٹی کمشنر شیخوپورہ راشن تقسیم کے کاؤنٹر پر رش دیکھ کر غصے میں آ گئے اور بغیر تصدیق کے ایک نوجوان کو ڈانٹنا شروع کر دیا۔ نوجوان نے وضاحت دی کہ وہ کسی بھی سرکاری محکمے میں ملازم نہیں، جس پر ڈی سی نے اسی نام کے دوسرے نوجوان کو پولیس کے حوالے کر دیا، لیکن اس نے بھی یہی کہا کہ وہ سرکاری ملازم نہیں ہے۔ اسی دوران، درجہ چہارم کا ملازم ذوالفقار، جو واش روم گیا ہوا تھا، واپس آیا تو ڈپٹی کمشنر نے اسے دیکھتے ہی تشدد شروع کر دیا۔ موجود افراد کے مطابق، ڈی سی نے ملازم کو سرعام مارا پیٹا اور پولیس کو حکم دیا کہ اسے گرفتار کر لیا جائے۔ بعد میں جب ملازم ذوالفقار کے واش روم جانے کی تصدیق ہوئی تو ڈپٹی کمشنر نے بغیر کسی معذرت کے اسے دوبارہ کام پر واپس جانے کا حکم دیا اور خود موقع سے روانہ ہو گئے۔
پاکستانی سیاستدان اور سابق رکن قومی اسمبلی فہیم خان نے اعلان کیا ہے کہ انہوں نے برطانیہ میں میٹروپولیٹن پولیس کی سائبر کرائم یونٹ میں بھگوڑے عادل راجہ کے خلاف شکایت درج کرائی ہے۔ فہیم خان نے اپنے بیان میں کہا کہ وہ اس شخص کے خلاف ہر ممکن قانونی راستہ اختیار کریں گے جو مسلسل جھوٹا پروپیگنڈا، گمراہ کن معلومات اور بہتان تراشی کے ذریعے ان سمیت دیگر افراد کی ساکھ کو نقصان پہنچا رہا ہے۔ یہ معاملہ اس وقت سامنے آیا جب عادل راجہ نے فہیم خان کے بارے میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ انہوں نے الیکشن 2024 میں استحکام پاکستان پارٹی (IPP) کی ٹکٹ جمع کروائی تھی، جس پر فہیم خان نے قرآن اٹھا کر اس الزام کی تردید کی تھی۔ اب انہوں نے قانونی کارروائی کا باقاعدہ آغاز کرتے ہوئے عادل راجہ کے خلاف یوکے پولیس کو شکایت درج کروا دی ہے۔ فہیم خان نے اپنے بیان میں پاکستانی کمیونٹی، قانونی ماہرین اور دیگر دوستوں سے اپیل کی ہے کہ اگر کسی کو مزید معلومات حاصل ہیں کہ برطانیہ میں اور کن اداروں میں اس کے خلاف شکایت درج کرائی جا سکتی ہے تو وہ ان کی رہنمائی کرے۔ انہوں نے کہا کہ وہ جلد ہی برطانیہ کے وکلاء سے مشاورت کریں گے تاکہ باضابطہ کیس دائر کر سکیں اور مکمل قانونی کارروائی کا آغاز ہو سکے۔ انہوں نے واضح کیا کہ وہ عادل راجہ کے جھوٹے الزامات اور بغیر کسی ثبوت کے عزت خراب کرنے کی روش کو مزید برداشت نہیں کریں گے۔ ان کے مطابق، یہ وقت گزر چکا جب کوئی بھی کسی پر جھوٹے الزامات لگا کر اس کی ساکھ کو نقصان پہنچا سکے اور کوئی اسے روکنے والا نہ ہو۔ فہیم خان نے عزم ظاہر کیا کہ وہ عادل راجہ کے خلاف بھرپور قانونی جنگ لڑیں گے اور اسے ہر جگہ بے نقاب کریں گے تاکہ وہ آئندہ کسی پر بے بنیاد الزامات لگانے سے باز آ جائے۔ انہوں نے اپنے بیان میں کہا، "عادل راجہ تم ایک بھگوڑے اور بے شرم آدمی ہو، جو عزت دار لوگوں کی پگڑیاں اچھالنے میں مصروف ہو۔ انشاءاللہ میں تمہارے خلاف مکمل قانونی کارروائی کروں گا تاکہ تمہیں سبق ملے اور تم دوبارہ کسی کی عزت پر حملہ کرنے کی جرات نہ کر سکو۔"
مارک زکربرگ نے پاکستان جانے سے گریز کرنے کی وجہ بتا دی مارک زکربرگ، میٹا کے CEO اور بانی، نے اس بات کا انکشاف کیا ہے کہ وہ پاکستان جانے سے کیوں گریز کرتے ہیں۔ جو روگن ایکسپیریئنس پوڈکاسٹ پر گفتگو کرتے ہوئے زکربرگ نے بتایا کہ ایک بار انہیں پاکستان میں توہین مذہب کے الزامات کے باعث قانونی مسائل کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ میٹا کے چیف نے اس معاملے کی تفصیلات میں جانے سے گریز کیا، لیکن یہ کہا کہ اس واقعے نے ان کے سفر کے فیصلوں پر گہرا اثر ڈالا۔ فیسبک اور انسٹاگرام کی مادر تنظیم میٹا کو مختلف ممالک میں مواد کی مانیٹرنگ پالیسیوں پر تنقید کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ 2010 کے ایک واقعے کو یاد کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان میں توہین مذہب کے ایک مقابلے کے انعقاد پر ان کے خلاف ایک مجرمانہ تحقیقات شروع کی گئی تھی۔ "تحقیقات پاکستان کے توہین مذہب کے قوانین کے تحت شروع کی گئی تھی، جن میں موت کی سزا بھی ہو سکتی ہے،" انہوں نے کہا، اور وضاحت کی کہ یہ صورت حال اس وقت پیدا ہوئی جب ایک شخص نے یہ اجاگر کیا کہ خاکوں کا بنانا اسلام میں پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی توہین کے مترادف ہے۔ "اس سے پاکستان میں قانونی کارروائی ہوئی، جس کے باعث مجھے وہاں جانے سے روک دیا گیا کیونکہ قانونی خطرات تھے۔" زکربرگ نے اس بات پر بھی زور دیا کہ ٹیکنالوجی کمپنیاں دنیا بھر میں مختلف ثقافتی اور قانونی فریم ورک کے ساتھ چلنے میں مشکلات کا سامنا کرتی ہیں۔ "دنیا بھر میں ایسی جگہیں ہیں جہاں مختلف اقدار ہیں... اور وہ چاہتے ہیں کہ ہم مزید مواد پر پابندی عائد کریں، جو بہت سے لوگوں کے خیال میں صحیح نہیں ہے،" انہوں نے کہا۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ حالیہ برسوں میں پاکستان کے توہین مذہب کے قوانین سے متعلق مقدمات میں اضافہ ہوا ہے۔ ان میں سے بیشتر کیسز سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر توہین مذہب کے الزامات کے حوالے سے ہیں۔ گزشتہ ماہ، ایک عدالت نے فیس بک پر توہین آمیز مواد اپ لوڈ کرنے والے چار افراد کو موت کی سزا سنائی۔ ایڈیشنل سیشن جج محمد طارق ایوب نے واجد علی، احفاق علی ثاقب، رانا عثمان اور سلیمان ساجد کو پیغمبر محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی توہین کرنے کے جرم میں سزا سنائی۔ "جج نے استغاثہ اور دفاع کے دلائل سننے کے بعد، گواہان کے بیانات کی روشنی میں ہر ایک کو مختلف الزامات پر موت کی سزا اور 80 سال قید کی سزا دی،" رپورٹ میں ایک اہلکار کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا گیا۔ دریں اثنا، پنجاب میں اسپیشل برانچ کی ایک رپورٹ نے انکشاف کیا ہے کہ پاکستان میں 400 سے زائد نوجوان افراد، مرد و خواتین، توہین مذہب کے الزام میں بدستور پاکستان میں مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں جنہوں نے انٹرنیٹ پر توہین آمیز مواد پھیلایا۔ رپورٹ کے مطابق ایک مشتبہ تنظیم "دی بلاسفیمی بزنس" نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کو توہین مذہب کے "جرم" میں ملوث کر رہی ہے اور پھر انہیں وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (FIA) کو رپورٹ کر رہی ہے۔ اس گروہ کے بارے میں کہا گیا ہے کہ یہ سنگین کارروائی مالی فائدے کے لئے کر رہا ہے۔ وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (FIA) نے 2024 جنوری میں "دی بلاسفیمی بزنس" کے گروہ سے متعلق ایک رپورٹ کی وصولی کی تصدیق کی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ خاص گروہ توہین مذہب کے 90 فیصد مقدمات کا مدعی ہے، جیسا کہ دستاویز میں بیان کیا گیا۔
اسلام آباد: خواجہ سعد رفیق نے اپنی ہی حکومت کے فیصلے کے خلاف بیان دیا ہے۔ تفصیلات کے مطابق پاکستان مسلم لیگ ن کے رہنما خواجہ سعد رفیق نے حکومتی پالیسیوں پر تنقید کرتے ہوئے ایک ٹوئٹ میں کہا کہ وزارت ایوی ایشن کو ختم کرکے اسے وزارت دفاع میں ضم کرنا ایک غیر مناسب فیصلہ ہے، جس پر انہیں افسوس ہوا ہے۔ خواجہ سعد رفیق نے مزید کہا کہ ایوی ایشن وزارت کے خاتمے سے ایوی ایشن انڈسٹری کو نقصان پہنچے گا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ن لیگ کے انتخابی منشور میں ریلویز اور ایوی ایشن کو ملا کر وزارت ٹرانسپورٹ بنانے کا وعدہ کیا گیا تھا۔ ان کا مؤقف تھا کہ اگر رائٹ سائزنگ ہی کرنا تھی تو ریلویز، ایوی ایشن اور پورٹ اینڈ شپنگ کو ملا کر وزارت ٹرانسپورٹ بنائی جا سکتی تھی۔
کراچی (اسٹاف رپورٹر) چیئرمین قومی احتساب بیورو (نیب) لیفٹیننٹ جنرل (ر) نذیر احمد بٹ نے کہا ہے کہ ان کی قیادت میں نیب میں خوف اور ہراسانی کے کلچر کو مکمل طور پر ختم کر دیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر پاکستان اپنی ترقی پر توجہ مرکوز رکھے گا تو وہ اگلے چھ سے سات سال میں ایک ٹریلین ڈالر کی معیشت بن سکتا ہے۔ چیئرمین نیب نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے بتایا کہ پچھلے سال بڑی تعداد میں پاکستانیوں نے ملک چھوڑا، جن میں سے تقریباً 25 ہزار افراد نے سرمایہ کاری کے ذریعے شہریت حاصل کرنے کے لیے وافر مقدار میں سرمایہ بیرون ملک منتقل کیا۔ انہوں نے اس ٹیلنٹ اور سرمایہ کا بیرون ملک منتقلی روکنے کی ضرورت پر زور دیا۔ بزنس مین گروپ کے چیئرمین زبیر موتی والا نے کہا کہ بدعنوانی اور ہراسانی لوگوں کو پاکستان چھوڑنے پر مجبور کرتی ہے۔ کے سی سی آئی کے صدر محمد جاوید بلوانی نے کہا کہ پاکستان میں کاروباری ماحول خراب ہو چکا ہے اور کئی ملٹی نیشنل کمپنیاں کراچی چھوڑ کر جا چکی ہیں۔ تفصیلات کے مطابق کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری (کے سی سی آئی) کے دورے کے دوران ایک اجلاس میں کاروباری برادری کی جانب سے اٹھائے گئے مسائل پر چیئرمین نیب نے یقین دہانی کرائی کہ ان کی قیادت میں نیب میں خوف اور ہراسانی کے کلچر کو مکمل طور پر ختم کر دیا گیا ہے۔ کاروباری افراد کی ہراسانی کو روکنے کے لیے نیب میں نئے قوانین متعارف کرائے گئے ہیں۔ چیئرمین نیب نے یہ بھی اعتماد ظاہر کیا کہ اگر پاکستان اپنی ترقی پر توجہ مرکوز رکھے گا تو وہ اگلے چھ سے سات سال میں ایک ٹریلین ڈالر کی معیشت بن سکتا ہے۔ انہوں نے پاکستان کے زرعی شعبے میں مواقع پر تفصیل سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ صرف چاول کی برآمدات 3.8 ارب ڈالر تک پہنچ چکی ہیں، جبکہ مجموعی زرعی برآمدات 9 ارب ڈالر تک پہنچ گئی ہیں۔
اسلام آباد: امریکی سفارتخانے نے اسلام آباد میں موجود اپنے شہریوں کو ممکنہ سیکیورٹی خدشات کے پیش نظر محتاط رہنے کی ہدایت جاری کر دی ہے۔ سفارتخانے نے اپنے بیان میں امریکی شہریوں کو فیصل مسجد اور اس کے اطراف جانے سے گریز کرنے کا مشورہ دیا ہے۔ یہ ہدایات تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی جانب سے فیصل مسجد سے متعلق جاری کردہ دھمکی کے بعد سامنے آئی ہیں۔ سفارتخانے کے ریجنل سیکیورٹی آفس نے فیصل مسجد کے علاقے میں امریکی عملے کے سفر پر بھی پابندی عائد کر دی ہے۔ امریکی شہریوں کے لیے احتیاطی تدابیر سفارتخانے نے امریکی شہریوں کو درج ذیل احتیاطی تدابیر اپنانے کی ہدایت کی ہے: فیصل مسجد اور اس کے اطراف کے علاقوں میں جانے سے گریز کریں۔ ہجوم یا کسی بھی غیر متوقع عوامی اجتماع کی صورت میں فوری طور پر وہاں سے نکل جائیں۔ اپنی ذاتی سیکیورٹی پلان کا جائزہ لیں۔ مقامی میڈیا پر حالات و واقعات سے متعلق اپ ڈیٹس حاصل کریں۔ اپنی شناختی دستاویزات ساتھ رکھیں اور مقامی حکام سے تعاون کریں۔ کم پروفائل رکھیں اور اپنے اردگرد کے ماحول سے باخبر رہیں۔ امریکی سفارتخانے کی جانب سے یہ ہدایات اسلام آباد میں سیکیورٹی خدشات کے پیش نظر دی گئی ہیں۔
سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس (ر) عظمت سعید شیخ لاہور میں انتقال کر گئے۔ وہ کچھ عرصے سے علیل تھے اور اسپتال میں زیر علاج تھے۔ ان کے اہل خانہ نے ان کے انتقال کی تصدیق کی ہے۔ جسٹس (ر) عظمت سعید شیخ 2012 سے 2019 تک سپریم کورٹ کے جج رہے۔ سپریم کورٹ میں تقرری سے قبل وہ لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کے طور پر خدمات انجام دے چکے تھے۔ وہ پاکستان کی عدالتی تاریخ کے ایک اہم مقدمے، پاناما لیکس کیس سننے والے بینچ کا بھی حصہ رہے۔ ان کے فیصلے اور عدالتی ریمارکس ملک کے قانونی نظام میں ایک نمایاں حیثیت رکھتے ہیں۔ عظمت سعید شیخ نے اپنی ابتدائی تعلیم کے بعد ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کی اور 1978 میں راولپنڈی میں بطور وکیل اپنے کیریئر کا آغاز کیا۔ بعد ازاں، 1980 میں انہوں نے لاہور میں قانونی پریکٹس شروع کی اور مختلف لاء چیمبرز میں کام کرکے تجربہ حاصل کیا۔ 1981 میں وہ لاہور ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ آف پاکستان کے وکیل کے طور پر رجسٹرڈ ہوئے۔ اپنی پیشہ ورانہ مہارت کے باعث وہ جلد ہی ایک معروف وکیل کے طور پر ابھرے اور متعدد اہم مقدمات میں وکالت کی۔ یکم جون 2012 کو جسٹس (ر) عظمت سعید نے سپریم کورٹ کے مستقل جج کے طور پر حلف اٹھایا۔ اس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے ان سے حلف لیا۔ سپریم کورٹ میں ان کی تعیناتی کے دوران انہوں نے کئی اہم فیصلے دیے جو آئینی اور قانونی حوالے سے سنگ میل سمجھے جاتے ہیں۔ جولائی 2019 میں جسٹس (ر) عظمت سعید نے مختصر مدت کے لیے قائم مقام چیف جسٹس آف پاکستان کا عہدہ بھی سنبھالا تھا۔
اسلام آباد: قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما عمر ایوب نے عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کو خط لکھ کر پاکستان میں شفافیت، قانون کی حکمرانی اور حالیہ عام انتخابات میں مبینہ دھاندلی سے متعلق شواہد فراہم کیے ہیں۔ عمر ایوب نے اپنے خط میں آئی ایم ایف کے موجودہ دورۂ پاکستان کو ایک اہم موڑ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ملک میں پائیدار معاشی ترقی اور سیاسی استحکام کے لیے منصفانہ انتخابات بنیادی حیثیت رکھتے ہیں۔ انہوں نے عالمی ادارے کو باور کرایا کہ قانون کی حکمرانی کے بغیر اقتصادی ترقی کا خواب شرمندۂ تعبیر نہیں ہو سکتا۔ اپوزیشن لیڈر نے آئی ایم ایف کو فراہم کردہ خط کے ساتھ ایک تفصیلی ڈوزیئر بھی منسلک کیا ہے، جو پہلے ہی چیف جسٹس آف پاکستان کو پیش کیا جا چکا ہے۔ اس ڈوزیئر میں حالیہ انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے ناقابل تردید شواہد فراہم کیے گئے ہیں۔ خط میں ذکر کیا گیا ہے کہ ریاستی اداروں، بشمول الیکشن کمیشن، نے پی ٹی آئی کے خلاف منظم اقدامات کیے اور انتخابی نتائج میں رد و بدل کی کوشش کی گئی۔ عمر ایوب کا کہنا تھا کہ پاکستان میں جمہوری اصولوں کی پاسداری کو یقینی بنانے کے لیے بین الاقوامی اداروں کو اس صورتحال سے آگاہ کرنا ضروری ہے۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ عالمی برادری شفافیت اور قانون کی بالادستی کو اولین ترجیح دے گی، تاکہ ملک میں اچھی حکمرانی کے اصولوں پر عمل درآمد یقینی بنایا جا سکے۔ خط میں این جی او "پتن" کی رپورٹ کا بھی حوالہ دیا گیا ہے، جس میں انتخابی عمل میں دھاندلی کے شواہد کی تصدیق کی گئی ہے۔ اپوزیشن لیڈر کے مطابق، انتخابات میں ہونے والی مبینہ بے ضابطگیوں پر عالمی برادری کی توجہ مبذول کرانا ضروری ہے تاکہ پاکستان میں جمہوری عمل کو شفاف بنایا جا سکے۔ عمر ایوب نے خط میں اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ اس معاملے پر مزید تفصیلات فراہم کرنے کے لیے تیار ہیں، تاکہ ملک میں آئین اور جمہوری اصولوں کی مکمل پاسداری کو یقینی بنایا جا سکے۔ ان کے مطابق، اس معاملے پر عالمی برادری کی توجہ دلانے سے پاکستان میں گورننس کی بہتری اور انتخابی عمل کی شفافیت کو فروغ ملے گا۔
کراچی: چیئرمین نیب لیفٹیننٹ جنرل (ر) نذیر احمد بٹ نے انکشاف کیا ہے کہ سندھ میں زمینوں کے ریکارڈ کا کوئی مؤثر نظام موجود نہیں، جس کی وجہ سے بڑے پیمانے پر دھوکہ دہی اور جعلسازی ہو رہی ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ عنقریب اس مسئلے پر نیب کی جانب سے بڑا ایکشن لیا جائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ کشمیر کی زمین سے زیادہ کراچی میں زمینوں کا مسئلہ ہے، جہاں بڑے پیمانے پر بدعنوانی ہو رہی ہے اور جعلسازی کے ذریعے اربوں روپے مالیت کی زمینوں پر قبضے کیے جا چکے ہیں۔ کراچی میں بلڈرز کے ایک اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے چیئرمین نیب نے کہا کہ سندھ میں زمینوں کا ریکارڈ انتہائی ناقص ہے اور مختلف لینڈ ڈپارٹمنٹس کے درمیان کوئی ربط موجود نہیں۔ انہوں نے انکشاف کیا کہ کراچی میں 7500 ایکڑ زمین کی ملکیتی دستاویزات میں جعلسازی کی گئی ہے، جس کی مالیت تقریباً 3 کھرب روپے ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر ان زمینوں کی فائلیں کھولی گئیں تو بڑا ہنگامہ کھڑا ہو جائے گا۔ چیئرمین نیب نے بلڈرز برادری کو یقین دہانی کراتے ہوئے کہا کہ ان کے مسائل کو سمجھا جا رہا ہے اور تمام نکات نوٹ کر لیے گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ نیب کا ادارہ بلڈرز کے ساتھ کھڑا ہے اور اس حوالے سے نیب قوانین میں اصلاحات کی جا چکی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ نیب میں شکایات درج کرانے کے لیے اب شناخت ظاہر کرنا ضروری ہوگا کیونکہ 85 فیصد شکایات نامعلوم ذرائع سے موصول ہو رہی تھیں، جن کی جانچ ممکن نہیں تھی۔ اصلاحات کے بعد نیب میں درج شکایات کی تعداد 4500 سے کم ہو کر 150 سے 200 رہ گئی ہے۔ چیئرمین نیب نے واضح کیا کہ کراچی اور سندھ میں زمینوں کی خرید و فروخت اور الاٹمنٹ میں بے ضابطگیاں عروج پر ہیں۔ ایل ڈی اے، کے ڈی اے اور ایم ڈی اے کی کارکردگی پر سوال اٹھاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ ادارے 40 سال سے اپنے الاٹیز کو قبضہ دینے میں ناکام رہے ہیں۔ انہوں نے آباد (ایسوسی ایشن آف بلڈرز اینڈ ڈیولپرز) کو ہدایت دی کہ وہ شواہد فراہم کرے تاکہ غیر قانونی عمارتوں کو قانون کے مطابق مسمار کیا جا سکے۔ انہوں نے کراچی ماسٹر پلان کی بہتری کے لیے نیب ڈی جی کو فوری رپورٹ دینے کی ہدایت کی اور کہا کہ کراچی چیمبر آف کامرس کو بھی یقین دلایا گیا ہے کہ نیب ہر ممکن انصاف فراہم کرے گا۔ انہوں نے مزید بتایا کہ گوادر میں نیب کا ریجنل دفتر قائم کر دیا گیا ہے، جہاں زمینوں میں ہونے والی کرپشن کے مقدمات درج کیے جا چکے ہیں۔ گوادر میں تقریباً تین کھرب روپے مالیت کی زمینوں پر مقدمات زیر سماعت ہیں۔ چیئرمین نیب نے اعلان کیا کہ نیب میں ون ونڈو آپریشن شروع کیا جا رہا ہے اور 2022 سے قبل کی تقریباً 21 ہزار شکایات ختم کر دی گئی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کے رئیل اسٹیٹ سیکٹر کے لیے نئی پالیسی تشکیل دی جا رہی ہے، جس کے تحت تمام مالی ادائیگیاں بینکوں کے ذریعے کی جائیں گی تاکہ شفافیت کو یقینی بنایا جا سکے۔ انہوں نے بتایا کہ حکومت فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) میں بڑے پیمانے پر اصلاحات کر رہی ہے اور اس کا نظام مزید مؤثر اور عوام دوست بنایا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایف بی آر کے بعض افسران کے خلاف نیب میں مقدمات چل رہے ہیں، اور 50 کروڑ روپے سے زیادہ کی کرپشن پر نیب فوری متحرک ہو جاتا ہے۔ چیئرمین نیب نے واضح کیا کہ نیب کے اندر بھی کرپشن کے خلاف سخت ایکشن لیا جا رہا ہے۔ کئی کرپٹ افسران کو نوکریوں سے برخاست کر دیا گیا ہے، اور مزید اصلاحات جاری ہیں تاکہ ادارے کے وقار کو بحال کیا جا سکے۔ انہوں نے اس عزم کا اظہار کیا کہ نیب اب صرف ٹھوس شواہد کی بنیاد پر کام کرے گا اور کسی کے ساتھ زیادتی نہیں کی جائے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ ماضی میں جو زیادتیاں ہوئیں، ان پر آباد سے معافی مانگتا ہوں، لیکن اب نیب کا ہر نوٹس قانون کے مطابق ہوگا اور کسی سے ذاتی دشمنی نہیں رکھی جائے گی، دباؤ میں آکر کسی کی عزت نفس مجروح نہیں کرینگے۔
لاہور: آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن (اپٹما) کے چیئرمین کامران ارشد نے خطرے کی گھنٹی بجاتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان کی ٹیکسٹائل صنعت شدید بحران کا شکار ہو چکی ہے، جہاں پہلے ہی 40 فیصد اسپننگ ملز بند ہو چکی ہیں جبکہ باقی ملز بھی بندش کے دہانے پر ہیں۔ اپٹما نے حکومت سے فوری مداخلت کی اپیل کرتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ مقامی ٹیکسٹائل صنعت کو مساوی مواقع فراہم کیے جائیں اور اسپننگ انڈسٹری کے تحفظ کے لیے فوری پالیسی اصلاحات متعارف کرائی جائیں۔ کامران ارشد کے مطابق دھاگے کی بے تحاشا درآمدات کے باعث مقامی ٹیکسٹائل صنعت شدید دباؤ میں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر یہ رجحان برقرار رہا تو مزید 100 سے زائد اسپننگ ملز بند ہونے کا خدشہ ہے، جس کے نتیجے میں لاکھوں افراد بے روزگار ہو سکتے ہیں۔ چیئرمین اپٹما نے حکومت کی پالیسیوں کو بھی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ غیر منصفانہ ٹیکس نظام اور عدم مساوات پر مبنی حکومتی فیصلوں نے اس صنعت کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس بحران کے باعث 15 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری بھی خطرے میں پڑ چکی ہے، جس سے ملکی معیشت پر منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ کامران ارشد نے زور دیا کہ پاکستان کی کاٹن اکانومی کو بچانے کے لیے فوری اور ٹھوس اقدامات کیے جائیں۔ ان کے مطابق ٹیکسٹائل سیکٹر کو سہارا دینے کے لیے سیلز ٹیکس میں اصلاحات ناگزیر ہیں۔ اگر حکومت نے بروقت اقدامات نہ کیے تو یہ صنعت مکمل طور پر تباہ ہو سکتی ہے، جس کا نقصان قومی معیشت کو ناقابلِ تلافی حد تک پہنچا سکتا ہے۔
اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے جج جسٹس محسن اختر کیانی کے ریمارکس پر شدید ردعمل دیتے ہوئے انہیں پارلیمنٹ پر حملہ قرار دیا ہے۔ انہوں نے قومی اسمبلی اجلاس کے دوران رولنگ دیتے ہوئے کہا کہ کسی کو بھی پارلیمنٹ کے بارے میں غیر ضروری بیان بازی کا حق حاصل نہیں۔ ایاز صادق نے وفاقی وزیر قانون کو ہدایت کی کہ وہ متعلقہ جج کو پیغام پہنچائیں کہ پارلیمنٹ ایک سپریم ادارہ ہے اور اس کی خودمختاری پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جا سکتا۔ یہ معاملہ اس وقت سامنے آیا جب اسلام آباد ہائیکورٹ میں فیڈرل پبلک سروس کمیشن (FPSC) کے نتائج روکنے کے خلاف دائر درخواست پر سماعت ہوئی۔ دوران سماعت جسٹس محسن اختر کیانی نے سخت ریمارکس دیے اور کہا کہ "عدلیہ، پارلیمنٹ اور انتظامیہ سمیت تمام ستون گر چکے ہیں۔ عدلیہ کا ستون ہوا میں ہے مگر ہم پھر بھی مایوس نہیں ہیں۔" جسٹس محسن کیانی نے چیئرمین FPSC لیفٹیننٹ جنرل (ر) اختر نواز ستی سے استفسار کیا کہ 2024 کے امتحانات کے نتائج کا اعلان نہیں ہوا اور 2025 کے امتحانات کا انعقاد کیا جا رہا ہے، جس پر چیئرمین FPSC نے فوری نتائج جاری کرنے سے معذرت کر لی۔ جسٹس محسن کیانی نے مزید کہا کہ اگر آج بھی نتائج کے اعلان کا فیصلہ ہو جائے تو ہم درخواستوں کو نمٹا دیتے ہیں۔ تاہم، درخواست گزاروں کے مؤقف کو مدنظر رکھتے ہوئے عدالت نے سی ایس ایس امیدواروں کی درخواستوں پر فیصلہ محفوظ کر لیا۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے 5 ججز کی ریپریزنٹیشن پر فیصلہ جاری کرتے ہوئے ان کی درخواست مسترد کر دی اور ہائیکورٹ میں ججز کی موجودہ سینیارٹی لسٹ کو برقرار رکھنے کا حکم دیا۔ اس فیصلے کے مطابق، دیگر صوبائی ہائیکورٹس سے ٹرانسفر ہوکر اسلام آباد ہائیکورٹ میں شامل ہونے والے ججز کی سینیارٹی میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی، اور جسٹس سرفراز ڈوگر بدستور سینئر پیونی جج برقرار رہیں گے۔ چیف جسٹس عامر فاروق نے فیصلے میں واضح کیا کہ جسٹس سرفراز ڈوگر نے 2015 میں بطور ہائیکورٹ جج حلف اٹھایا تھا، اور آئینی طور پر کسی بھی صوبائی ہائیکورٹ سے دوسری ہائیکورٹ میں ٹرانسفر ہونے والے ججز کو دوبارہ نیا حلف اٹھانے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ فیصلے میں کہا گیا کہ ججز کی تعیناتی اور ٹرانسفر دو الگ معاملات ہیں اور انہیں ایک جیسا نہیں سمجھا جا سکتا۔ عدالتی فیصلے کے تحت جن ججز کی ریپریزنٹیشن مسترد کی گئی ہے ان میں جسٹس محسن اختر کیانی، جسٹس طارق جہانگیری، جسٹس بابر ستار، جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان اور جسٹس ثمن رفعت شامل ہیں۔ ان ججز کا موقف تھا کہ جس جج کا جس ہائیکورٹ میں تقرر ہوتا ہے، وہ اسی ہائیکورٹ کے لیے حلف اٹھاتا ہے، اور آئینی طور پر کسی دوسری ہائیکورٹ میں ٹرانسفر ہونے کی صورت میں اسے نیا حلف لینا پڑتا ہے۔ ان کے مطابق، سینیارٹی کا تعین بھی نئے حلف کے مطابق ہونا چاہیے۔ تاہم، اسلام آباد ہائیکورٹ نے ان کے اس موقف کو رد کر دیا اور واضح کیا کہ ٹرانسفر شدہ ججز کی سینیارٹی برقرار رہے گی۔ چیف جسٹس عامر فاروق نے رجسٹرار آفس کو ہدایت دی ہے کہ وہ اس فیصلے سے تمام 5 ججز کو باضابطہ طور پر آگاہ کرے۔ واضح رہے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں دیگر ہائیکورٹس سے 3 ججز کے ٹرانسفر کے بعد سینیارٹی لسٹ میں رد و بدل کیا گیا تھا، جس کے تحت جسٹس سرفراز ڈوگر کو سینئر پیونی جج برقرار رکھا گیا ہے جبکہ جسٹس محسن اختر کیانی دوسرے نمبر پر چلے گئے ہیں۔ اس نئی فہرست کے مطابق جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب تیسرے، جسٹس طارق محمود جہانگیری چوتھے، جسٹس بابر ستار پانچویں اور جسٹس سردار اسحاق خان چھٹے نمبر پر ہیں۔ مزید برآں، جسٹس ارباب محمد طاہر ساتویں، جسٹس ثمن رفعت امتیاز آٹھویں، جسٹس خادم حسین نویں اور جسٹس اعظم خان دسویں نمبر پر ہوں گے۔ جسٹس آصف گیارہویں جبکہ جسٹس انعام امین منہاس بارہویں نمبر پر موجود ہیں۔

Back
Top