خبریں

معاشرتی مسائل

Threads
0
Messages
0
Threads
0
Messages
0
None

طنز و مزاح

Threads
0
Messages
0
Threads
0
Messages
0
None
راولپنڈی کی مقامی عدالت نے پاکستان ایئر فورس (PAF) کی ریٹائرڈ اسکواڈرن لیڈر انعم حسن کو جعلی طلاق نامہ تیار کرنے کے الزام میں 14 دن کے جوڈیشل ریمانڈ پر اڈیالہ جیل بھیج دیا۔ یہ حکم سینئر سول جج وقار احمد صدیقی نے جاری کیا، جب ان کے شوہر اسکواڈرن لیڈر عدنان شمعون نے عدالت میں الزام عائد کیا کہ انعم حسن نے جعلی طلاق نامہ تیار کرکے سعد رفیق نامی شخص سے شادی کر لی۔ ایکسپریس ٹریبیون کے مطابق عدنان شمعون، جو کہ کامرہ ایئر بیس پر بطور پائلٹ تعینات ہیں، نے عدالت میں شواہد پیش کیے کہ ان کی شادی 2014 میں انعم حسن سے ہوئی تھی اور ان کے تین بچے ہیں: زینب (6 سال)، مہرالنساء (3 سال) اور ابراہیم (ڈیڑھ سال)۔ عدنان شمعون کے مطابق، 21 ستمبر 2023 کو انہیں 10 ماہ کے کورس کے لیے سرگودھا ایئر بیس بھیجا گیا۔ اس دوران وہ اپنی بیوی سے مستقل رابطے میں رہے۔ تاہم، جب وہ واپس آئے تو انہیں معلوم ہوا کہ ان کی بیوی لاپتہ ہے۔ اس پر انہوں نے پاکستان ایئر فورس میں تحریری شکایت درج کرائی۔ تحقیقات کے دوران، 31 جولائی 2024 کو یونین کونسل آفندی کالونی سے جاری شدہ ایک طلاق نامہ ملا، جو بعد میں جعلی ثابت ہوا۔ مزید چھان بین پر یہ انکشاف ہوا کہ فیملی جج محمد سرفراز کی طرف سے جاری کردہ خلع کا حکم نامہ بھی جعلی تھا۔ پولیس نے مقدمہ درج کر کے انعم حسن کو گرفتار کر لیا۔ تفتیشی افسر نے عدالت سے تین روزہ جسمانی ریمانڈ کی درخواست کی، تاہم عدالت نے درخواست مسترد کرتے ہوئے انہیں جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیجنے کا حکم دیا۔ انعم حسن نے ضمانت کی درخواست بھی دائر کر دی ہے
لاہور – بین الاقوامی ادارے سیویکس (CIVICUS) نے پاکستان میں سیاسی کارکنوں کے خلاف کارروائیوں، احتجاجی مظاہروں کو دبانے، آزادیٔ اظہار پر قدغنوں اور ڈیجیٹل حقوق کی خلاف ورزیوں کے باعث ملک کو اپنی واچ لسٹ میں شامل کر لیا ہے۔ سیویکس کی رپورٹ کے مطابق 2024 کے دوران پاکستان میں آزادیٔ اظہار رائے، سول سوسائٹی پر حملوں، مذہبی آزادی، صنفی اور سماجی حقوق سمیت متعدد مسائل کی نشاندہی ہوئی ہے۔ تنظیم کے مطابق ملک میں شہری آزادیوں پر مسلسل دباؤ بڑھایا جا رہا ہے، جو بین الاقوامی معیارات کی خلاف ورزی ہے۔ سیویکس ایک بین الاقوامی ادارہ ہے جو گزشتہ دو دہائیوں سے دنیا بھر میں شہری حقوق اور سول سوسائٹی کو مضبوط کرنے کے لیے کام کر رہا ہے۔ اس نیٹ ورک میں سول سوسائٹی تنظیمیں، ٹریڈ یونینز، پیشہ ورانہ تنظیمیں، این جی اوز، فلاحی فاؤنڈیشنز اور دیگر فنڈنگ باڈیز شامل ہیں۔ سیویکس نے انسانی اور شہری حقوق کی اپنی واچ لسٹ میں پاکستان کو نارنجی رنگ میں ظاہر کیا ہے، جو ان ممالک کے لیے مخصوص ہے جہاں شہری آزادیوں کو دبایا جا رہا ہے۔ اس درجہ بندی کو "ری پریسڈ" (Repressed) زمرہ کہا جاتا ہے، جس میں وہ ممالک شامل ہوتے ہیں جہاں شہری آزادیوں پر سخت پابندیاں عائد ہیں۔ سیویکس کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں سیاسی مخالفین اور انسانی حقوق کے کارکنوں کو دبانے کے لیے ریاستی ادارے متحرک ہیں۔ ادارے کے مطابق بلوچ یکجہتی کمیٹی کی رہنما ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ اور انسانی حقوق کی کارکن و وکیل ایمان زینب مزاری اور ان کے شوہر پر جھوٹے الزامات عائد کیے گئے، جن میں انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت سنگین مقدمات شامل ہیں۔ حکومت نے پشتون تحفظ موومنٹ (PTM) کو دبانے کے لیے انسداد دہشت گردی ایکٹ کا استعمال کیا۔ اکتوبر اور نومبر 2023 میں سیاسی مخالفین کے احتجاج کو روکنے کے لیے بڑے پیمانے پر گرفتاریاں کی گئیں اور ان پر مبہم قوانین کے تحت مقدمات درج کیے گئے۔ سیویکس مانیٹرنگ کے مطابق پاکستانی حکام نے احتجاجی مظاہروں کو روکنے کے لیے سخت اقدامات کیے، جن میں اہم شاہراہوں اور راستوں کو بند کرکے مظاہرین کی نقل و حرکت محدود کرنا اور بلوچ و سندھی کمیونٹیز کے احتجاج پر طاقت کا استعمال شامل ہے۔ سیویکس کا کہنا ہے کہ یہ اقدامات پاکستان کی جانب سے شہری آزادیوں کے تحفظ کے بین الاقوامی وعدوں کی کھلی خلاف ورزی ہیں۔ سیویکس نے اپنی رپورٹ میں پاکستان میں میڈیا اور ڈیجیٹل حقوق کی بگڑتی ہوئی صورتحال پر بھی روشنی ڈالی ہے۔ الیکٹرانک جرائم کی روک تھام کے قانون (پیکا) کے تحت صحافیوں کے خلاف کارروائیوں میں اضافہ ہوا ہے۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارم 'ایکس' (ٹوئٹر) کی فروری 2024 سے بندش اور احتجاجی مظاہروں کے دوران ملک بھر میں موبائل اور انٹرنیٹ سروسز کی معطلی جیسے واقعات رپورٹ کیے گئے ہیں۔ سیویکس کے ایڈووکیسی اینڈ کمپین افسر برائے ایشیا، راجویلو کرونانیتھی نے پاکستانی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ، ایمان زینب مزاری اور دیگر انسانی حقوق کے کارکنوں کے خلاف الزامات واپس لیے جائیں، پشتون تحفظ موومنٹ پر عائد پابندی ختم کی جائے اور پرامن احتجاج اور آزادیٔ اظہار کے حقوق کا تحفظ کیا جائے۔ سیویکس نے اپنی 2024 کی واچ لسٹ میں پاکستان کے علاوہ سربیا، اٹلی، امریکہ اور ڈیموکریٹک ری پبلک آف کانگو کو بھی شامل کیا ہے۔
دنیا کی معروف شپنگ اور لاجسٹکس کمپنی A.P. Moller-Maersk نے بھارت میں 5 ارب ڈالر کی بڑی سرمایہ کاری کا اعلان کیا ہے، جس کا مقصد ملک کے بندرگاہی، ٹرمینل اور لینڈ سائیڈ انفراسٹرکچر کو ترقی دینا ہے۔ یہ اعلان فروری 2025 میں سامنے آیا، جس میں کمپنی نے Pipavav ٹرمینل کی توسیع اور واڈھوان پورٹ پر ایک نئے کنٹینر ٹرمینل کے قیام کا منصوبہ پیش کیا۔ تاہم، یہ سرمایہ کاری بعض شرائط سے مشروط ہے، جیسے کہ Pipavav کے معاہدے کی توسیع اور واڈھوان پورٹ کے لیے کامیاب بولی۔ Maersk کی جانب سے اس منصوبے کو بھارت کی تیزی سے بڑھتی ہوئی معیشت اور عالمی سپلائی چین میں اس کے کردار کو مستحکم بنانے کی کوشش قرار دیا جا رہا ہے۔ لیکن اس خبر کے ساتھ ہی X (سابقہ ٹوئٹر) پر یہ دعوے سامنے آئے کہ کمپنی نے پہلے پاکستان میں 2 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا ارادہ ظاہر کیا تھا، لیکن اب وہی سرمایہ بھارت میں منتقل کر دی گئی ہے۔ تاہم، اس حوالے سے Maersk یا پاکستانی حکام کی جانب سے کوئی سرکاری تصدیق سامنے نہیں آئی۔ پاکستان میں Maersk کی سرمایہ کاری کا پس منظر 2024 میں مئی سے اگست کے درمیان، پاکستان کے وفاقی وزیر برائے سمندری امور قیصر احمد شیخ نے اس بات کی تصدیق کی تھی کہ Maersk، کراچی پورٹ اور لاجسٹکس سیکٹر میں 2 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرنے جا رہی ہے۔ ان کے مطابق، اس سرمایہ کاری کا مقصد کراچی پورٹ کی ترقی، لاجسٹکس کے شعبے میں بہتری، اور شپ بریکنگ انڈسٹری کو جدید خطوط پر استوار کرنا تھا۔ اس سلسلے میں پاکستان اور ڈنمارک کے درمیان ایک مفاہمتی یادداشت (MoU) پر دستخط ہونے کی توقع تھی، جو اکتوبر 2024 تک طے پانے کی اطلاعات تھیں۔ تاہم، نومبر 2024 تک موصول ہونے والی رپورٹس کے مطابق، Maersk اور پاکستانی حکام کے درمیان مذاکرات جاری تھے، اور قیصر احمد شیخ نے متعدد مواقع پر اس سرمایہ کاری کی اہمیت کو اجاگر کیا۔ اس کے بعد اس حوالے سے کوئی نئی معلومات سامنے نہیں آئیں۔ بعض اطلاعات کے مطابق Maersk نے پاکستان کے بجائے بھارت میں سرمایہ کاری کو ترجیح دی ہے، لیکن اس دعوے کی سرکاری تصدیق نہیں ہوئی۔ کیا Maersk نے پاکستان کو نظرانداز کر دیا؟ ماہرین کے مطابق، Maersk کی بھارت میں 5 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا منصوبہ اور پاکستان کے لیے 2 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری دو علیحدہ معاملات ہو سکتے ہیں۔ تاہم، پاکستان کے منصوبے پر خاموشی اور تازہ ترین بیانات کی عدم دستیابی نے اس معاملے کو غیر یقینی بنا دیا ہے۔ فی الحال، پاکستان میں Maersk کی سرمایہ کاری کا مستقبل واضح نہیں، جبکہ بھارت میں 5 ارب ڈالر کا منصوبہ معتبر ذرائع جیسے کہ The Economic Times اور CNBC کی رپورٹوں سے تصدیق شدہ ہے۔ اس صورتحال پر مزید وضاحت کے لیے Maersk یا پاکستانی حکومت کے سرکاری بیان کا انتظار کرنا ہوگا۔
وزیر اعلیٰ مریم نواز کی جانب سے شروع کیے گئے پنجاب حکومت کے ماڈل ہینڈ کارٹ منصوبے کو سنگین مالی بے ضابطگیوں، اقربا پروری اور کرپشن کے الزامات کا سامنا ہے۔ اس منصوبے کا مقصد سڑکوں پر تجاوزات کو منظم کرنا اور ٹریفک کی روانی بہتر بنانا تھا، تاہم اس کے نفاذ میں شدید بے قاعدگیاں سامنے آئی ہیں۔ یہ منصوبہ لاہور کے 19 مخصوص مقامات پر ایک ہزار ریڑھیاں مستحق خوانچہ فروشوں کو بلا معاوضہ فراہم کرنے کے لیے شروع کیا گیا تھا۔ تاہم، حاصل شدہ دستاویزات کے مطابق، میونسپل کارپوریشن لاہور (ایم سی ایل) کی جانب سے اس منصوبے پر عمل درآمد کے دوران سنگین خامیاں پائی گئی ہیں۔ پہلے مرحلے میں ایک ہزار ریڑھیوں کی خریداری کا تخمینہ 15 کروڑ روپے لگایا گیا تھا۔ پانچ مختلف کمپنیوں نے اس منصوبے میں بولی لگائی، جس میں ایم/ایس ویلیڈ انجینئرز نے سب سے کم 98,000 روپے فی ریڑھی کی بولی جمع کرائی۔ تاہم، مبینہ طور پر ایم سی ایل کے افسران نے جان بوجھ کر اس کمپنی کی ایک اہم دستاویز ہٹا دی، جس کے نتیجے میں اسے نااہل قرار دے دیا گیا۔ یہ صورتحال "رحمان اینڈ برادرز" نامی کمپنی کے لیے فائدہ مند ثابت ہوئی، جسے 148,700 روپے فی ریڑھی کے حساب سے ٹھیکہ دے دیا گیا۔ اس فیصلے سے قومی خزانے پر 5 کروڑ روپے کا اضافی بوجھ پڑا۔ ذرائع کے مطابق، رحمان اینڈ برادرز نے اصل کام ایم/ایس ویلیڈ انجینئرز کو ہی دے دیا، لیکن پرانی کم بولی پر، اور اضافی رقم اپنی جیب میں رکھ لی۔ اس مبینہ ملی بھگت پر سخت تنقید کی جا رہی ہے۔ حکومت کی جانب سے یہ وعدہ کیا گیا تھا کہ خوانچہ فروشوں کو ریڑھیاں مفت دی جائیں گی، لیکن کئی دکانداروں نے دعویٰ کیا کہ انہیں ریڑھی حاصل کرنے کے لیے 10,000 سے 25,000 روپے تک ادا کرنے پڑے۔ کچھ خوانچہ فروشوں نے یہ بھی شکایت کی کہ ان کی پرانی ریڑھیاں ضبط کر لی گئیں۔ وینڈرز کی شکایات کے بعد، پنجاب حکومت کے اسپیشل مانیٹرنگ یونٹ کے سربراہ امجد حفیظ نے ایک ٹویٹ میں کہا کہ ایم سی ایل کے ریگولیشن ونگ کے ایک اہلکار کے خلاف کارروائی کی گئی ہے۔ تاہم، ذرائع کا دعویٰ ہے کہ صرف ایک جونیئر ملازم کو سزا دی گئی، جبکہ سینئر افسران بدستور اپنے عہدوں پر موجود ہیں۔ متنازعہ پہلے مرحلے کے باوجود، دوسرے مرحلے کا آغاز ہو چکا ہے۔ اکتوبر 2024 میں ایم سی ایل ایڈمنسٹریٹر سید موسیٰ رضا کی جانب سے جاری اشتہار میں ہر ریڑھی کی لاگت 150,000 روپے مقرر کی گئی، جس کے تحت مزید 1,000 ریڑھیاں فراہم کی جانی ہیں۔ اس اضافے سے منصوبے کی مجموعی لاگت 20 کروڑ روپے تک جا پہنچی ہے۔ دوسرے مرحلے کے لیے بولی کے عمل پر بھی شدید سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔ پہلے مرحلے میں پانچ کمپنیوں نے حصہ لیا تھا، لیکن اس بار صرف ایک ہی کمپنی میدان میں اتری، جس سے منصوبے میں کارٹیلائزیشن اور بدعنوانی کے خدشات مزید بڑھ گئے ہیں۔ ڈپٹی کمشنر لاہور سید موسیٰ رضا نے منصوبے کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ ای-ٹینڈرنگ کا عمل شفاف تھا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ایم/ایس ویلیڈ انجینئرز، جو پہلے مرحلے میں سب سے کم بولی دہندہ تھی، نے خود ہی دوسرے مرحلے میں بولی نہ لگانے کا فیصلہ کیا۔ قیمتوں میں اضافے پر وضاحت دیتے ہوئے، انہوں نے کہا کہ دوسرے مرحلے میں ریڑھیوں کی تیاری میں مزید مواد، جیسے اسٹیل راڈ کورنگز، شامل کی گئی ہیں، جس کی وجہ سے لاگت بڑھی۔ تاہم، ذرائع کا کہنا ہے کہ پہلے اور دوسرے مرحلے میں 5-5 کروڑ روپے کے اضافی اخراجات بدعنوانی کا واضح اشارہ دیتے ہیں۔
پاکستان میں غیر ملکی سرمایہ کاری بڑھانے کے لیے بنائی گئی اسپیشل انویسٹمنٹ فیسلیٹیشن کونسل (ایس آئی ایف سی) کو قائم ہوئے دو سال ہو چکے ہیں، لیکن اب تک اس کے ذریعے ملک میں ہونے والی غیر ملکی سرمایہ کاری کے واضح شواہد سامنے نہیں آئے۔ بی بی سی اردو کی رپورٹ کے مطابق وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال نے چند ماہ قبل دعویٰ کیا تھا کہ چار دوست ممالک نے ایس آئی ایف سی کے تحت 27 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا وعدہ کیا ہے، جس میں سعودی عرب کے پانچ ارب ڈالر، متحدہ عرب امارات اور کویت کے دس، دس ارب ڈالر، اور آذربائیجان کے دو ارب ڈالر شامل ہیں۔ ان کے مطابق، سی پیک کی طرح ایس آئی ایف سی بھی پاکستان میں غیر ملکی سرمایہ کاری لانے میں کامیاب ہوگی۔ تاہم، جب ان سے حالیہ دنوں میں سرمایہ کاری کی تفصیلات پوچھی گئیں تو وہ کوئی واضح جواب نہیں دے سکے۔ دوسری جانب، حکومتی اعداد و شمار کے مطابق جولائی سے دسمبر 2024 کے دوران پاکستان میں ہونے والی براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری میں 20 فیصد اضافہ ہوا ہے، اور حکومت کا دعویٰ ہے کہ اس اضافے میں ایس آئی ایف سی کا کردار اہم رہا ہے۔ لیکن اس حوالے سے کوئی تفصیلی اعداد و شمار فراہم نہیں کیے گئے، جس کی وجہ سے سرمایہ کاری کے اصل حجم اور ذرائع پر سوالات اٹھ رہے ہیں۔ ماہر معیشت ڈاکٹر قیصر بنگالی نے بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ حکومت اگر اپنے موقف کو درست بھی مان لے، تب بھی یہ واضح نہیں کہ وعدہ کی گئی سرمایہ کاری کس شعبے میں خرچ کی جائے گی اور آیا یہ سرمایہ کاری حقیقت میں آئے گی یا محض اعلانات تک محدود رہے گی۔ ان کے مطابق، معیشت کو سرکاری ہدایات کے ذریعے نہیں چلایا جا سکتا، بلکہ اس کے لیے بہتر پالیسی سازی اور کاروباری ماحول کی ضرورت ہوتی ہے۔ پالیسی انسٹیٹیوٹ ایس ڈی پی آئی کے ماہر معیشت ڈاکٹر ساجد امین جاوید بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ کسی بھی بڑے منصوبے کے اثرات دیکھنے میں وقت لگتا ہے، اور ایس آئی ایف سی کو مکمل طور پر جانچنے کے لیے ابھی مزید انتظار کرنا ہوگا۔ تاہم، سرمایہ کاری میں اضافے کے جو دعوے کیے جا رہے ہیں، ان کے حقیقی اثرات کو ثابت کرنے کے لیے مزید شفافیت درکار ہے۔ ایس آئی ایف سی کے حوالے سے سب سے بڑا اعتراض اس میں فوج کے کردار پر کیا جا رہا ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ سویلین معاملات میں فوج کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ سے فیصلہ سازی کے روایتی اداروں کی جگہ محدود ہو رہی ہے۔ صحافی و تجزیہ کار بینظیر شاہ نے بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، پاکستان میں پارلیمانی جمہوری نظام ہے، جہاں کابینہ فیصلہ سازی کا سب سے بڑا ادارہ ہونا چاہیے۔ لیکن جب ایس آئی ایف سی جیسے ادارے بنائے جاتے ہیں، تو یہ سوال اٹھتا ہے کہ پالیسی سازی میں اصل فیصلہ سازی کون کرے گا؟ ان کا کہنا تھا کہ "یہ ایک ایسا ادارہ ہے جس کی آئینی حیثیت واضح نہیں، جہاں غیر منتخب افراد حکومتی معاملات پر فیصلے کر رہے ہیں، اور اس میں شفافیت کا فقدان ہے۔ ہمیں نہیں معلوم کہ اس کا بجٹ کیا ہے، کتنے افسران کام کر رہے ہیں، اور ان کے اختیارات کیا ہیں۔" ایس آئی ایف سی کیوں بنائی گئی اور یہ کیسے کام کرتی ہے؟ پاکستان اور متحدہ عرب امارات کے اعلیٰ حکام کے درمیان ہونے والی ایک اہم ملاقات میں قرضوں کے رول اوور پر بات چیت کا آغاز ہوا، لیکن پھر متحدہ عرب امارات کے حکام نے پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے والی کمپنیوں کی شکایات کا ذکر چھیڑ دیا۔ اس ملاقات کے بعد دونوں ممالک نے اس بات پر اتفاق کیا کہ پاکستان میں سرمایہ کاری کو آسان بنانے کے لیے ایک ایسا نظام تشکیل دیا جائے گا جو تمام رکاوٹوں کو "ون ونڈو" کے ذریعے دور کرے گا۔ اسی فیصلے کے نتیجے میں اسپیشل انویسٹمنٹ فیسلیٹیشن کونسل (SIFC) کے قیام کا اعلان کیا گیا، جس کا مقصد غیر ملکی سرمایہ کاری کے لیے سازگار ماحول فراہم کرنا تھا۔ ایس آئی ایف سی کو اس طرح سے ڈیزائن کیا گیا ہے کہ اس میں حکومت اور فوج دونوں کی شمولیت ہو۔ اس کی قیادت وزیر اعظم شہباز شریف کر رہے ہیں، جبکہ فوج کے سربراہ جنرل سید عاصم منیر، چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ اور آزاد کشمیر و گلگت بلتستان کے اعلیٰ حکام بھی اس کمیٹی کا حصہ ہیں۔ ہر شعبے میں سرمایہ کاری کو فروغ دینے کے لیے الگ الگ کمپنیاں رجسٹر کی گئی ہیں، جن کی قیادت ریٹائرڈ فوجی افسران کر رہے ہیں۔ اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ ایس آئی ایف سی کے قیام کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ چین اور متحدہ عرب امارات جیسی اہم سرمایہ کار قوتوں کو پاکستان میں سرمایہ کاری کے لیے اعتماد فراہم کیا جا سکے۔ تاہم، کیا یہ منصوبہ واقعی غیر ملکی سرمایہ کاری لانے میں کامیاب ہو پایا ہے؟ ایس آئی ایف سی نے پانچ بڑے شعبوں کو اپنی توجہ کا مرکز بنایا ہے: زراعت و لائیو اسٹاک، معدنیات و توانائی، انفارمیشن ٹیکنالوجی و ٹیلی کام، صنعت و نجکاری، اور سیاحت۔ ان تمام شعبوں کے لیے الگ الگ کمپنیاں قائم کی گئیں، جن کی سربراہی زیادہ تر ریٹائرڈ فوجی افسران کر رہے ہیں۔ اس سے پہلے پاکستان میں سرمایہ کاری سے متعلق پالیسی سازی زیادہ تر سویلین حکومتوں کے تحت رہی، لیکن ایس آئی ایف سی کے قیام کے بعد فوج کا کردار بڑھ گیا ہے، جس پر مختلف حلقے سوال اٹھا رہے ہیں۔" زراعت میں سرمایہ کاری: پانی کے تنازعے نے نیا بحران کھڑا کر دیا ایس آئی ایف سی کے تحت زراعت کے شعبے میں "پاکستان گرین انیشی ایٹیو" متعارف کرایا گیا، جس کے تحت ملک بھر میں 40 لاکھ ایکڑ غیر آباد زمین کو آباد کرنے کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔ یہ زمین 20 سے 30 سال کی لیز پر دی جائے گی، اور اس کے لیے بڑے پیمانے پر آبپاشی منصوبے بنائے جا رہے ہیں، جن میں چولستان، گریٹر تھل کینال، جلال پور کینال اور گریٹر چولستان کینال شامل ہیں۔ تاہم، سندھ کے کاشتکار اس منصوبے سے ناخوش نظر آتے ہیں۔ سندھ میں کئی کسان تنظیموں اور سیاسی جماعتوں نے ان نئے نہری منصوبوں کے خلاف احتجاج شروع کر رکھا ہے۔ ان کا مؤقف ہے کہ پنجاب میں زمین آباد کرنے کے لیے سندھ کے پانی کو استعمال کیا جا رہا ہے، جبکہ سندھ پہلے ہی پانی کی شدید قلت کا شکار ہے۔ سندھ آبادگار بورڈ کے رہنما محمود نواز کے مطابق، "یہ تو کاغذوں میں بہت اچھا لگتا ہے کہ زمین کو آباد کیا جا رہا ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ اس کے لیے پانی کہاں سے آئے گا؟" سندھ کے وزیر آبپاشی جام خان شورو نے واضح کیا ہے کہ ان کی حکومت "سندھ کے حصے کا ایک گھونٹ پانی بھی نہیں دے گی۔" وفاقی وزیر احسن اقبال نے کہا ہے کہ "کسی صوبے کے وسائل کو دوسرے صوبے کے لیے استعمال نہیں کیا جائے گا"، لیکن سندھ حکومت کا اصرار ہے کہ اس مسئلے کو مشترکہ مفادات کونسل میں حل کیا جائے۔ زراعت اور زمین کی الاٹمنٹ پر سوالات ایس آئی ایف سی کے تحت زراعت کے شعبے میں سرمایہ کاری کے لیے ایک پرائیویٹ لمیٹڈ کمپنی قائم کی گئی، جسے ہزاروں ایکڑ سرکاری زمین دی گئی ہے تاکہ وہ اسے مزید لیز پر دے سکے۔ ناقدین کے مطابق، حکومت کا کسی نجی کمپنی کو زمین دینا اور پھر منافع میں شراکت داری کرنا ایک غیر معمولی قدم ہے، جس پر شفافیت کے حوالے سے سوالات پیدا ہوتے ہیں۔ سیاحت کے فروغ کی کوششیں اور مقامی آبادی کی ناراضی ایس آئی ایف سی نے سیاحت کے فروغ کے لیے "گرین ٹورازم" کے نام سے ایک منصوبہ متعارف کرایا ہے۔ اس کا مقصد پاکستان میں سیاحتی شعبے میں غیر ملکی سرمایہ کاری کو فروغ دینا ہے۔ گرین ٹورازم کے تحت گلگت بلتستان میں 37 ہوٹلز اور سیاحتی مراکز کو گرین ٹورازم کمپنی کے حوالے کیا گیا، جبکہ کالام، ہنزہ، نلتر، کٹاس راج، واہگہ، ننکانہ صاحب، گورکھ ہل سمیت 18 مقامات پر سیاحت کے فروغ کے منصوبے شروع کیے گئے۔ تاہم، گلگت بلتستان کے عوامی حلقے اس منصوبے سے ناخوش ہیں۔ عوامی ایکشن کمیٹی کے صدر ایڈووکیٹ احسان علی نے بی بی سی کو بتایا: "یہ گرین نہیں، بلیک دھندا ہے! مقامی افراد کی زمینیں اور وسائل طاقتور اداروں کے کنٹرول میں جا رہے ہیں۔" نجف علی، جو سکردو میں ایک سیاحتی کارکن ہیں، کہتے ہیں: "گلگت بلتستان کے لوگوں نے پورے پاکستان کو سیاحت سکھائی، اور اب جب یہ شعبہ ترقی کر رہا ہے تو اس پر بھی قبضہ کیا جا رہا ہے۔" خیبر پختونخوا حکومت نے بھی ایس آئی ایف سی کے اقدامات پر سوالات اٹھائے ہیں۔ صوبے کے مشیر برائے سیاحت زاہد چن زیب نے کہا ہے کہ نگران حکومت کے دور میں کیے گئے تمام معاہدے ختم کیے جائیں اور "فوج اپنے کام پر توجہ دے، کاروبار حکومت کے حوالے کرے!" فوجی قیادت کا مؤقف فوج کے ترجمان آئی ایس پی آر سے جب ایس آئی ایف سی کے کردار پر تبصرہ مانگا گیا تو کوئی جواب نہیں ملا، تاہم آرمی چیف پہلے یہ کہہ چکے ہیں کہ معاشی استحکام کے لیے حکومتی منصوبوں کی حمایت کرنا فوج کی ذمہ داری ہے۔ وفاقی وزیر احسن اقبال بھی یہ مؤقف رکھتے ہیں کہ فوج ملک کو معاشی بحران سے نکالنے میں مدد کر رہی ہے، اور اس میں کوئی مسئلہ نہیں ہونا چاہیے۔ لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ سوال صرف فوج کی شمولیت کا نہیں، بلکہ فیصلہ سازی کے نظام اور شفافیت کا ہے۔ ون ونڈو آپریشن جیسے اقدامات سویلین ادارے بھی کر سکتے ہیں، تو پھر ایس آئی ایف سی میں فوج کی براہ راست شمولیت کیوں ضروری سمجھی جا رہی ہے؟ کیا ایس آئی ایف سی کامیاب رہی؟ ایس آئی ایف سی کے قیام کو دو سال مکمل ہو چکے ہیں، لیکن اس کے اثرات پر ملا جلا ردعمل سامنے آ رہا ہے۔ فوجی افسران کا مؤقف ہے کہ سرمایہ کاری کے لیے سازگار ماحول بنایا گیا ہے، اور سیاحت و زراعت میں اہم اقدامات اٹھائے گئے ہیں، جبکہ ناقدین کا مؤقف ہے کہ ایس آئی ایف سی کے تحت مقامی افراد کے مفادات کو نظر انداز کیا جا رہا ہے، اور غیر ملکی سرمایہ کاری کے دعوے ابھی تک صرف وعدے ہیں۔ بی بی سی کی تحقیق کے مطابق، ایس آئی ایف سی کے قیام کے بعد سے کسی بڑی غیر ملکی سرمایہ کاری کے شواہد موجود نہیں ہیں۔ یہ سوال اپنی جگہ قائم ہے کہ آیا ایس آئی ایف سی واقعی پاکستان میں سرمایہ کاری بڑھانے میں مددگار ثابت ہو رہی ہے، یا یہ ایک ایسا تجربہ ہے جو مقامی آبادی کے لیے مزید مشکلات پیدا کر رہا ہے؟ یہ وقت ہی بتائے گا!
محکمہ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی) پنجاب نے صوبے بھر میں دہشت گردی کے ممکنہ خطرات کے پیش نظر 73 انٹیلی جنس بیسڈ آپریشنز کیے، جن کے نتیجے میں 10 دہشت گرد گرفتار کر لیے گئے۔ ترجمان سی ٹی ڈی کے مطابق یہ کارروائیاں راولپنڈی، ٹوبہ ٹیک سنگھ، خوشاب، بہاولنگر، رحیم یار خان، راجن پور، بھکر اور جہلم میں کی گئیں۔ گرفتار ہونے والے دہشت گردوں میں دو کا تعلق کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سے ہے، جنہیں خوشاب اور جہلم سے گرفتار کیا گیا۔ ترجمان نے بتایا کہ آپریشن کے دوران دھماکا خیز مواد، ایک آئی ای ڈی بم، ایک ڈیٹونیٹر، 35 فٹ سیفٹی فیوز وائر، پمفلٹس، نقدی اور موبائل فون برآمد کیے گئے۔ گرفتار دہشت گردوں کی شناخت ریاض، شفیق، راشد، جاوید، ظہیر، ظہیر الدین، حفیظ، وزیر، آصف اور وحید کے ناموں سے ہوئی ہے۔ بیان کے مطابق یہ دہشت گرد مختلف مقامات پر کارروائیاں کرکے خوف و ہراس پھیلانا چاہتے تھے۔ ترجمان نے مزید بتایا کہ گزشتہ ایک ہفتے کے دوران 758 کومبنگ آپریشنز کیے گئے، جن میں 107 مشتبہ افراد کو گرفتار کیا گیا اور 30 ہزار 394 افراد سے پوچھ گچھ کی گئی۔ سی ٹی ڈی کا کہنا ہے کہ صوبے میں امن و امان کو یقینی بنانے کے لیے انٹیلی جنس بیسڈ آپریشنز کا سلسلہ مزید تیز کیا جائے گا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے 2018 میں دائر کیے گئے مقدمے کا سات سال بعد فیصلہ سنا دیا، جس میں مصطفیٰ نواز کھوکھر کے والد، نواز کھوکھر، کی جانب سے اسلحہ لائسنس کی ڈپلیکیٹ کاپی کے لیے دائر درخواست منظور کر لی گئی۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ درخواست گزار نواز کھوکھر اب انتقال کر چکے ہیں، تاہم ان کے ورثا نے مقدمے کی پیروی جاری رکھی۔ عدالت کے مطابق نواز کھوکھر نے بطور رکن قومی اسمبلی 8 مارچ 1987 کو اسلحہ لائسنس حاصل کیا تھا۔ عدالت نے مزید کہا کہ جن اسلحہ لائسنسز کو کمپیوٹرائزڈ نہیں کیا گیا، وہ عام طور پر منسوخ تصور کیے جاتے ہیں، لیکن یہ اصول اراکین قومی اسمبلی پر لاگو نہیں ہوتا، اس لیے نواز کھوکھر کا اسلحہ لائسنس منسوخ نہیں سمجھا جائے گا۔ فیصلے میں ہدایت کی گئی کہ رولز کے تحت درخواست گزار کے لائسنس کی ڈپلیکیٹ کاپی فراہم کی جائے۔ واضح رہے کہ نواز کھوکھر نے 2015 میں اپنے اسلحہ لائسنس کے گم ہونے پر اس کی ڈپلیکیٹ کاپی کے لیے درخواست دائر کی تھی۔
اسلام آباد:پی ٹی آئی کے سینیٹر اعجاز احمد چوہدری اور سینیٹر عون عباس بپی کے پروڈکشن آرڈرز جاری کر دیے گئے ہیں۔ ایکسپریس نیوز کے مطابق چیئرمین سینیٹ یوسف رضا گیلانی نے مراسلے میں حکام کو ہدایت کی ہے کہ سینیٹر اعجاز چوہدری اور سینیٹر عون عباس بپی کی ایوان بالا کے آج ہفتہ 8 مارچ 2025 کو منعقد ہونے والے اجلاس میں شرکت کو یقینی بنایا جائے۔ واضح رہے کہ 2 روز قبل اسلام آباد ہائی کورٹ میں سینیٹر اعجاز چوہدری کی سینیٹ اجلاس میں شرکت کے لیے پروڈکشن آرڈرز سے متعلق درخواست کی سماعت ہوئی تھی، جس میں قائم مقام چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ سرفراز ڈوگر نے پی ٹی آئی کے سینیٹر اعجاز احمد چوہدری کی سینیٹ اجلاس میں شرکت کے لیے پروڈکشن آرڈرز جاری کرنے کی درخواست پر سماعت کی اور فریقین کو نوٹسز جاری کیے تھے۔ درخواست گزار نے وفاق کو وزارت داخلہ، سیکرٹری سینیٹ کے ذریعے فریق بنایا۔ علاوہ ازیں آئی جی جیل خانہ جات پنجاب، سپرنٹنڈنٹ لاہور جیل اور آئی جی اسلام آباد بھی فریق بنائے گئے تھے۔
ملک کے دو بڑے ڈیموں، تربیلا اور منگلا، میں پانی کی سطح خطرناک حد تک کم ہو کر ڈیڈ لیول کے قریب پہنچ گئی ہے، جس کے بعد انڈس ریور سسٹم اتھارٹی (ارسا) نے صوبوں کو خبردار کرتے ہوئے پانی کی تقسیم کے لیے نیا ضابطہ جاری کر دیا ہے۔ ڈان نیوز کے مطابق، ارسا کی جانب سے جاری مراسلے میں بتایا گیا ہے کہ رواں ربیع سیزن کے باقی عرصے میں پانی کی 30 سے 35 فیصد تک کمی کا امکان ہے۔ اس صورتحال کے پیش نظر یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ جتنا پانی ڈیموں میں آئے گا، اتنا ہی آگے ریلیز کیا جائے گا تاکہ ذخائر کو مکمل طور پر ختم ہونے سے بچایا جا سکے۔ مراسلے میں صوبائی محکمہ آبپاشی کو فوری اقدامات لینے کی ہدایت کی گئی ہے، تاہم ارسا نے واضح کیا ہے کہ جب تک بارشیں نہیں ہوتیں، پانی کی قلت کا مسئلہ برقرار رہنے کا خدشہ ہے۔ ارسا کے مطابق، اس سیزن میں پنجاب نے 20 فیصد اور سندھ نے 16 فیصد پانی کی قلت کا سامنا کیا ہے۔ اس وقت سندھ کو 25 ہزار کیوسک پانی فراہم کیا جا رہا ہے، جبکہ صوبے کی طلب 27 ہزار کیوسک ہے۔ اسی طرح پنجاب کو 40 ہزار کیوسک پانی دیا جا رہا ہے، لیکن اس کی طلب 45 ہزار کیوسک ہے۔ ارسا نے خبردار کیا ہے کہ اگر بارش نہ ہوئی تو منگلا اور تربیلا ڈیم اگلے 3 سے 4 دن میں ڈیڈ لیول پر پہنچ سکتے ہیں۔ یہ صورتحال ملک میں زرعی اور گھریلو پانی کی فراہمی کے لیے شدید مشکلات پیدا کر سکتی ہے۔ پانی کی شدید کمی کے باعث پنجاب حکومت نے چاول کی کاشت پر 20 مئی تک پابندی عائد کر دی ہے تاکہ دستیاب پانی کو بہتر طریقے سے استعمال کیا جا سکے۔ تاہم، دوسری طرف چولستان کو سرسبز کرنے کے لیے ایک نہر نکالنے کا منصوبہ بھی منظور کر لیا گیا ہے۔
اسلام آباد:وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ خواتین کو بااختیار بنانا پاکستان کی خوشحالی اور ترقی کے لیے لازمی ہے۔ خواتین کے عالمی دن کے موقع پر اپنے پیغام میں وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ آج ہم اس بات کا عہد کرتے ہیں کہ خواتین ہمارے معاشرے کی معمار ہیں، ہمارے گھروں کا ستون ہیں اور ہمارے مستقبل کو مستحکم بنانے میں اہم کردار ادا کر رہی ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ خواتین کی زندگیوں میں انتہائی اہمیت ہے۔ کلاس رومز سے لے کر بورڈ رومز تک، میدانوں سے لے کر فرنٹ لائنز تک، پاکستانی خواتین ہماری قوم کے روشن مستقبل کو سنوار رہی ہیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ اس سال خواتین کے عالمی دن کا تھیم ’’تمام خواتین اور لڑکیوں کے لیے: حقوق، مساوات اور انہیں بااختیار بنانا‘‘ دراصل ایک عزم کا اعادہ ہے، جو ہمارے مشترکہ فرض کی یاد دلاتا ہے کہ ہم ایک ایسا معاشرہ بنائیں جس میں خواتین کا اہم کردار ہو۔ شہباز شریف نے کہا کہ ہمارا مذہب اسلام خواتین کی عزت اور حقوق پر بہت زور دیتا ہے۔ حکومت پاکستان نے پالیسی سطح پر مداخلت، قانونی اصلاحات اور ادارہ جاتی تعاون کے ذریعے خواتین کے حقوق کے لیے اہم اقدامات کیے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حقیقی صنفی مساوات کی طرف ہمارا سفر ابھی مکمل نہیں ہوا۔ خواتین کو بااختیار بنانا پاکستان کی خوشحالی اور ترقی کے لیے ضروری ہے۔ جب ہم خواتین کی تعلیم، صحت اور معاشی آزادی میں سرمایہ کاری کرتے ہیں تو ہم نہ صرف افراد بلکہ آنے والی نسلوں کی ترقی میں مدد کرتے ہیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ آئیے! آج کے دن ہم خواتین کے حقوق کے احترام کو مزید آگے بڑھانے اور ایک ایسا پاکستان بنانے کے لیے اپنی کوششوں کو تیز کرنے کا عہد کریں جہاں ہر عورت کی صلاحیتوں کا مکمل ادراک ہو اور ہر بیٹی کا خواب اس کی پہنچ میں ہو۔
پاکستان کرکٹ ٹیم کے سابق ہیڈ کوچ جیسن گلیسپی نے پاکستان میں کرکٹ ٹیلنٹ کی تعریف کرتے ہوئے بہتر نتائج کے لیے پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) کو اہم مشورہ دیا ہے۔ انہوں نے بھارتی سابق کپتان اور کمنٹیٹر سنیل گواسکر کے پاکستان کرکٹ پر تنقیدی تبصرے کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اگر پاکستان صحیح کھلاڑیوں کا انتخاب کرے اور کرکٹ کی ترقی کے لیے وقت دے تو کسی بھی ٹیم کو شکست دے سکتا ہے۔ سابق بھارتی کپتان سنیل گواسکر نے چیمپئنز ٹرافی میں پاکستان کی ناقص کارکردگی پر تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ موجودہ پاکستانی ٹیم اتنی کمزور ہے کہ شاید انہیں بھارت کی بی ٹیم کو ہرانے میں بھی مشکل ہو۔ اس بیان پر ردعمل دیتے ہوئے جیسن گلیسپی نے گواسکر کی رائے کو "بکواس" قرار دیا اور کہا کہ پاکستان کرکٹ میں بے پناہ ٹیلنٹ موجود ہے، صرف ضرورت اس بات کی ہے کہ صحیح کھلاڑیوں کو منتخب کیا جائے اور انہیں وقت اور موقع دیا جائے۔ جیسن گلیسپی نے واضح کیا کہ پاکستان کرکٹ میں ٹیلنٹ کی کوئی کمی نہیں، لیکن مسائل سلیکشن اور پلیئرز کی ترقی کے نظام میں موجود ہیں۔ انہوں نے پی سی بی کو مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ صحیح کھلاڑیوں کا انتخاب کیا جائے اور ان پر اعتماد کیا جائے، نئے ٹیلنٹ کے ساتھ صبر اور مستقل مزاجی کے ساتھ کام کیا جائے، کوچز کو تسلسل کے ساتھ موقع دیا جائے تاکہ ٹیم کے نتائج بہتر ہو سکیں، اور سلیکشن کے عمل میں مکمل میرٹ کو یقینی بنایا جائے۔ اس سے قبل بھی جیسن گلیسپی نے پاکستان کرکٹ کے حوالے سے ایک متنازعہ بیان دیا تھا، جس میں انہوں نے پاکستان کے عبوری ہیڈ کوچ عاقب جاوید کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ انہوں نے کہا کہ عاقب جاوید نے ہیڈ کوچ بننے کے لیے میری اور گیری کرسٹن کی ساکھ کو نقصان پہنچایا۔
پشاور کے علاقے ریگی میں واٹس ایپ گروپ سے نکالے جانے پر ہونے والے اختلافات کے نتیجے میں ایک شخص نے دوسرے شخص کو فائرنگ کر کے ہلاک کر دیا ہے۔ پولیس کے مطابق یہ واقعہ ایک دن قبل پیش آیا، جب مقتول اور ملزم کے درمیان گروپ سے نکالے جانے پر تلخ کلامی ہوئی تھی، جو بالآخر قتل میں بدل گئی۔ پشاور کے تھانہ ریگی کے سٹیشن ہاؤس آفیسر (ایس ایچ او) معراج خان نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ مقامی افراد اور قبیلے کے لوگوں کا ایک واٹس ایپ گروپ تھا، جس سے ایک شخص کو نکالے جانے پر اختلاف پیدا ہوا۔ انہوں نے بتایا کہ قتل سے قبل اشفاق اور مشتاق کے درمیان بحث ہوئی تھی، اور اگلے دن بات مزید بڑھ گئی۔ پولیس کی رپورٹ کے مطابق، مقتول مشتاق کے سوتیلے بھائی ہمایوں نے بیان دیا کہ واٹس ایپ گروپ سے نکالے جانے کے بعد اشفاق اور مشتاق میں تکرار ہوئی تھی۔ بعد ازاں، دونوں نے ایک دوسرے پر فائرنگ کی، اور ہمایوں اور مشتاق نے راضی نامہ کروانے کے لیے ایک مقامی حجرے کی طرف جانے کا فیصلہ کیا تھا، تاہم راستے میں اشفاق نے دونوں پر دوبارہ فائرنگ کی۔ ہمایوں نے مزید بتایا کہ فائرنگ کے بعد ان کے بھائی مشتاق اپنی جان بچانے کے لیے ایک پیٹرول پمپ کے کمرے میں پناہ گزین ہوئے، جہاں اشفاق نے ان پر گولی مار کر انہیں قتل کر دیا۔ ایس ایچ او معراج خان نے تصدیق کی کہ یہ واقعہ گزشتہ روز بعد دوپہر پیش آیا اور انہوں نے تفتیش شروع کر دی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ قاتل کو جلد گرفتار کر لیا جائے گا۔
وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ مقامی سرمایہ کاروں کی شرکت کے بغیر بیرونی سرمایہ کاری ممکن نہیں، اس لیے ملک کے سرمایہ کاروں کو چاہیے کہ وہ پہلے خود سرمایہ لگائیں تاکہ دیگر ممالک بھی پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے میں دلچسپی لیں۔ وزیر اعظم سے کاروباری برادری کے وفد نے ملاقات کی، جس میں سرمایہ کاروں نے حکومت کی معاشی پالیسیوں پر مکمل اعتماد کا اظہار کیا۔ سرکاری اعلامیے کے مطابق، سرمایہ کاروں نے ملک میں کاروبار کے لیے سازگار ماحول فراہم کرنے پر وزیر اعظم کو خراج تحسین پیش کیا۔ وزیر اعظم نے کہا کہ کاروباری برادری ملک کا قیمتی اثاثہ ہے، جنہوں نے مشکل حالات میں بھی صنعتی اور معاشی ترقی کے لیے اپنا کردار ادا کیا۔ انہوں نے کہا کہ ان ہی کی کاوشوں کی بدولت ملک کی معیشت کا پہیہ چلتا رہا اور لاکھوں لوگوں کو روزگار ملا۔ انہوں نے اس عزم کا اظہار کیا کہ حکومت کاروباری برادری کی مشاورت سے معیشت کی بہتری کے لیے اصلاحات جاری رکھے گی۔ انہوں نے کہا کہ ملکی معیشت درست سمت میں گامزن ہے، جبکہ شرح سود اور مہنگائی میں نمایاں کمی آئی ہے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ سرمایہ کاری کا آغاز مقامی سرمایہ کاروں سے ہوتا ہے، اور یہی عنصر بیرونی سرمایہ کاری کو بھی راغب کرتا ہے۔ انہوں نے یقین دہانی کرائی کہ وہ ہر ہفتے دو مرتبہ سرمایہ کاروں سے ملاقات کریں گے تاکہ ان کے مسائل کو براہ راست سن کر ان کے حل کے لیے اقدامات کیے جا سکیں۔ کاروباری شخصیات نے حکومت کی پالیسیوں پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ان پالیسیوں کے باعث ملکی آئی ٹی انڈسٹری عالمی سطح پر تیزی سے ترقی کر رہی ہے۔ اس موقع پر شرکا نے مختلف شعبوں میں بہتری کے لیے اپنی تجاویز بھی پیش کیں۔ وزیر اعظم نے تمام متعلقہ وزارتوں کو ہدایت دی کہ وہ کاروباری نمائندوں اور اسٹیک ہولڈرز سے مسلسل مشاورت کریں تاکہ معاشی پالیسیوں کو مزید بہتر بنایا جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت معیشت کی ترقی کو مزید تیز کرنے کے لیے ہر ممکن اقدامات کرے گی اور سرمایہ کاروں کو مکمل تعاون فراہم کیا جائے گا۔
بھارتی فضائیہ کو ایک ہی دن میں دو بڑے فضائی حادثات کا سامنا کرنا پڑا، جن میں ایک لڑاکا طیارہ اور ایک ٹرانسپورٹ طیارہ گر کر تباہ ہوگئے۔ خوش قسمتی سے دونوں حادثات میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا، تاہم ان واقعات نے بھارتی فضائیہ کی کارکردگی پر ایک بار پھر سوالیہ نشان کھڑا کر دیا ہے۔ بھارتی فضائیہ کے مطابق پہلا واقعہ ہریانہ میں پیش آیا، جہاں جیگوار لڑاکا طیارہ تربیتی مشق کے لیے امبالا ایئربیس سے روانہ ہوا لیکن پرواز کے کچھ دیر بعد ہی تکنیکی خرابی کے باعث گر کر تباہ ہوگیا۔ حکام کا کہنا ہے کہ پائلٹ نے حاضر دماغی کا مظاہرہ کرتے ہوئے طیارے کو آبادی سے دور لے جا کر ایجیکٹ کیا اور بحفاظت زمین پر اترنے میں کامیاب رہا۔ بعد ازاں، اسے فوری طور پر طبی امداد کے لیے اسپتال منتقل کر دیا گیا۔ بھارتی فضائیہ نے حادثے کی تحقیقات کے لیے انکوائری کا حکم دے دیا ہے۔ دوسرا واقعہ مغربی بنگال میں پیش آیا، جہاں بھارتی فضائیہ کا اے این-32 ٹرانسپورٹ طیارہ بگڈوگرا ایئرپورٹ پر گر کر تباہ ہوگیا۔ رپورٹس کے مطابق، حادثہ لینڈنگ کے دوران پیش آیا، تاہم خوش قسمتی سے عملہ مکمل طور پر محفوظ رہا۔ بھارتی فضائیہ کا کہنا ہے کہ حادثے کی وجوہات جاننے کے لیے تفصیلی تحقیقات کی جائیں گی۔ یہ پہلا موقع نہیں کہ بھارتی فضائیہ کو ایک ہی دن میں دو فضائی حادثات کا سامنا کرنا پڑا ہو۔ گزشتہ برسوں میں بھی بھارتی فوج کے طیارے تکنیکی مسائل اور دیگر وجوہات کے باعث تباہ ہوتے رہے ہیں، جس پر ماہرین کئی بار تشویش کا اظہار کر چکے ہیں۔
پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں افغانستان سے لائے گئے غیر ملکی اسلحے کے استعمال کے شواہد ایک بار پھر منظرِ عام پر آگئے ہیں۔ حالیہ واقعے میں 4 مارچ کو بنوں کنٹونمنٹ پر ہونے والے حملے میں دہشت گردوں کے قبضے سے امریکی اسلحہ اور گولہ بارود برآمد ہوا۔ ڈان نیوز کے مطابق، فتنۃ الخوارج نامی دہشت گرد گروہ نے بنوں کنٹونمنٹ پر حملے کی کوشش کی، تاہم سیکیورٹی فورسز کی بروقت کارروائی نے ان کے عزائم خاک میں ملا دیے۔ حملے میں ناکامی کے خوف سے دہشت گردوں نے دو بارودی مواد سے بھری گاڑیاں کنٹونمنٹ کی دیوار سے ٹکرا دیں، لیکن اس کے باوجود ان کے ناپاک ارادے پورے نہ ہو سکے۔ سیکیورٹی فورسز کے آپریشن کے دوران چار خودکش بمباروں سمیت 16 دہشت گردوں کو ہلاک کر دیا گیا۔ ہلاک دہشت گردوں سے امریکی ساختہ اسلحہ اور گولہ بارود برآمد کیا گیا، جن میں ایم 24 اسنائپر رائفل، ایم 16 اور ایم 4 شامل ہیں۔ سیکیورٹی ذرائع کے مطابق، یہ دہشت گرد فورسز پر حملوں اور بے گناہ شہریوں کے قتل میں ملوث رہے ہیں۔ اس سے قبل بھی شمالی وزیرستان کے علاقے غلام خان کلی میں سیکیورٹی فورسز نے انٹیلیجنس بیسڈ آپریشن کیا تھا۔ اس کارروائی میں دہشت گرد گروہ کے ٹھکانے کو مؤثر انداز میں نشانہ بنایا گیا اور چھ دہشت گرد ہلاک کر دیے گئے۔ اس آپریشن میں بھی دہشت گردوں کے قبضے سے امریکی اسلحہ اور گولہ بارود برآمد ہوا تھا، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ عناصر افغانستان سے منتقل ہونے والے غیر ملکی اسلحے کو پاکستان میں تخریبی کارروائیوں کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ سیکیورٹی فورسز کی بروقت کارروائیوں نے نہ صرف ایک بڑے حملے کو ناکام بنایا بلکہ دہشت گردوں کی جانب سے استعمال کیے جانے والے اسلحے کے ذرائع پر بھی سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔ پاکستانی حکام نے اس معاملے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے عالمی برادری سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ افغانستان میں چھوڑی جانے والی اسلحے کی ترسیل پر کڑی نظر رکھے تاکہ اسے دہشت گردی کے لیے استعمال ہونے سے روکا جا سکے۔
سوشل میڈیا پر مبینہ منفی پروپیگنڈے کے الزام میں تشکیل دی گئی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کے سامنے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے متعدد رہنما بشمول پارٹی چیئرمین بیرسٹر گوہر پیش ہوئے۔ پیشی کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بیرسٹر گوہر نے بتایا کہ جے آئی ٹی نے ان سے تقریباً ڈیڑھ گھنٹے تک مختلف سوالات کیے۔ انہوں نے کہا کہ ہم تمام اداروں کا احترام کرتے ہیں اور کسی بھی ادارے کے ساتھ خلیج پیدا نہیں کرنا چاہتے۔ جے آئی ٹی کی جانب سے اٹھائے گئے سوالات پارٹی کے پلیٹ فارم پر زیر بحث لائیں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ سوشل میڈیا سے متعلق جے آئی ٹی کے سوالات پر وہ پارٹی کے بانی سے بھی مشاورت کریں گے۔ ڈان نیوز کے مطابق جے آئی ٹی کی کارروائی کی اندرونی تفصیلات بھی سامنے آگئی ہیں۔ ذرائع کے مطابق تحریک انصاف کے طلب کردہ رہنماؤں سے سوشل میڈیا ہینڈلرز سے متعلق سوالات کیے گئے اور پاک فوج و ریاستی اداروں پر کی جانے والی سوشل میڈیا پوسٹس پر سخت موقف اپنایا گیا۔ ذرائع نے مزید بتایا کہ جے آئی ٹی نے تحریک انصاف کے رہنماؤں کو ان کی سوشل میڈیا سرگرمیوں کے شواہد دکھائے اور ان سے فنڈنگ کے ذرائع سے متعلق بھی پوچھ گچھ کی گئی۔ پی ٹی آئی نے پارٹی فنڈز سے متعلق تمام ریکارڈ تحقیقاتی ٹیم کے حوالے کردیا۔ ذرائع کے مطابق جے آئی ٹی نے ان رہنماؤں کے خلاف سخت کارروائی کا عندیہ دیا ہے جو پیشی کے لیے حاضر نہیں ہوئے۔ جے آئی ٹی نے واضح کیا کہ جو افراد طلب کیے جانے کے باوجود نہیں آئے، ان کے خلاف سخت ایکشن لیا جائے گا۔ ذرائع کے مطابق جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہونے والوں میں چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر، رؤف حسن اور شاہ فرمان شامل تھے، جبکہ تحریک انصاف کے فنانس ڈیپارٹمنٹ کے دو افراد نے بھی پیش ہو کر تفصیلات فراہم کیں۔ عالیہ حمزہ اور کنول شوذب کی نمائندگی ان کے وکیل ڈاکٹر علی عمران نے کی، جسے جے آئی ٹی نے مشروط طور پر قبول کر لیا۔ تاہم، تحقیقاتی ٹیم نے انہیں آئندہ طلبی پر ہر صورت پیش ہونے کی ہدایت کی۔ گزشتہ روز جے آئی ٹی نے پی ٹی آئی کے مزید 15 افراد کو طلبی کے نوٹس جاری کیے تھے، جن میں سابق اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر، کنول شوذب، تیمور سلیم، شاہ فرمان، عون عباس، عالیہ حمزہ ملک، شہباز شبیر اور وقاص اکرم شامل ہیں۔ علاوہ ازیں، پی ٹی آئی کی سوشل میڈیا ٹیم کے 10 افراد کو بھی نوٹسز بھیجے گئے تھے، جن میں آصف رشید، محمد ارشد، صبغت اللہ ورک، اظہرمشوانی، محمد نعمان افضل، جبران الیاس، سلمان رضا، زلفی بخاری، موسیٰ ورک، اور علی حسنین شامل ہیں۔ سرکاری ریڈیو پاکستان کے مطابق تحقیقاتی ٹیم کے پاس سوشل میڈیا پر منفی پروپیگنڈے میں ملوث ہونے کے ٹھوس شواہد موجود ہیں۔ جے آئی ٹی کی تشکیل الیکٹرانک کرائمز ایکٹ 2016 کے سیکشن 30 کے تحت کی گئی ہے، جس کے تحت کسی بھی ڈیجیٹل سرگرمی کے خلاف قانونی کارروائی کی جا سکتی ہے۔ تحریک انصاف کی قیادت نے ان تحقیقات پر ابھی تک کوئی حتمی ردعمل نہیں دیا، تاہم بیرسٹر گوہر نے واضح کیا کہ وہ پارٹی سطح پر اس معاملے کو زیر بحث لائیں گے اور قانونی راستہ اختیار کریں گے۔
داعش خراسان (ISIS-K) کے ایک اہم رکن محمد شریف اللہ، جسے ”جعفر“ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، کو پاکستان میں حراست میں لینے کے بعد امریکہ کے حوالے کر دیا گیا ہے۔ امریکی حکام کے مطابق، شریف اللہ کو دہشت گردی میں معاونت اور حملوں کی سازش کے الزامات کا سامنا ہے، جن کے نتیجے میں متعدد ہلاکتیں ہوئیں۔ محمد شریف اللہ 30 جولائی 1986 کو افغانستان میں پیدا ہوا اور اس کا تعلق افغانستان میں سرگرم داعش خراسان کے گروہ سے ہے۔ وہ 2021 میں کابل ایئرپورٹ کے قریب ہونے والے ایبے گیٹ دھماکے کا ماسٹر مائنڈ سمجھا جاتا ہے، جس میں 13 امریکی فوجیوں سمیت تقریباً 170 افغان شہری جاں بحق ہوئے تھے۔ رپورٹس کے مطابق، شریف اللہ نے 2016 میں داعش خراسان میں شمولیت اختیار کی اور متعدد دہشت گرد سرگرمیوں میں ملوث رہا۔ 2019 میں اسے گرفتار کیا گیا، لیکن بعد میں رہا کر دیا گیا، جس کے بعد وہ دوبارہ دہشت گرد نیٹ ورک میں شامل ہوگیا۔ ذرائع کے مطابق، ایبے گیٹ حملے سے قبل اس نے کابل ایئرپورٹ کے ارد گرد سیکیورٹی چیک پوائنٹس کی نگرانی اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی سرگرمیوں پر نظر رکھنے کا کام انجام دیا۔ اس کے علاوہ، وہ 2016 میں کابل میں سفارتی محافظوں پر حملے اور ماسکو میں ایک نائٹ کلب پر حملے کے لیے ہتھیاروں کی تربیت فراہم کرنے میں بھی مبینہ طور پر ملوث تھا۔ امریکی حکام کا کہنا ہے کہ شریف اللہ کو بین الاقوامی قانونی کارروائی کے تحت دہشت گردی کی سرگرمیوں پر جوابدہ بنایا جائے گا۔
امریکی محکمہ انصاف نے انکشاف کیا ہے کہ پاکستانی سیکیورٹی فورسز کے ہاتھوں بلوچستان سے گرفتار کیے گئے داعش خراسان کے دہشت گرد محمد شریف اللہ نے اپنے جرم کا اعتراف کرلیا ہے۔ شریف اللہ نے 2021 میں کابل ایئرپورٹ پر ہونے والے مہلک حملے کے چار گرفتار ملزمان میں سے دو کو شناخت بھی کرلیا ہے۔ امریکی محکمہ انصاف کے جاری کردہ بیان کے مطابق، شریف اللہ نے تسلیم کیا ہے کہ اس نے ممکنہ حملہ آوروں کو اسلحہ چلانے کی تربیت دی تھی اور کابل حملے کی تیاری میں براہ راست معاونت فراہم کی۔ اس کے علاوہ، اس نے امریکی اور طالبان کی سیکیورٹی چوکیوں پر نظر رکھی اور داعش کے دیگر اراکین کو بتایا کہ "راستہ کلیئر ہے" تاکہ حملہ باآسانی انجام دیا جا سکے۔ محکمہ انصاف کے مطابق، شریف اللہ پر نہ صرف غیر ملکی دہشت گرد تنظیم کو مالی وسائل اور لاجسٹک مدد فراہم کرنے کا الزام ہے، بلکہ اس نے متعدد دیگر حملوں میں داعش خراسان کی معاونت کا بھی اعتراف کیا ہے۔ اس میں ایک خودکش حملے سے قبل بمبار کو ہدف تک پہنچانے کا واقعہ بھی شامل ہے۔ امریکی حکام نے بتایا کہ شریف اللہ کا ماسکو کے قریب مارچ 2024 میں ہونے والے دہشت گرد حملے سے بھی تعلق رہا ہے۔ تفتیش کے دوران، اس نے مختلف بین الاقوامی حملوں میں داعش کے لیے معاونت کرنے کا اعتراف کیا، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ تنظیم کے اہم آپریشنل نیٹ ورک کا حصہ تھا۔ امریکی سیکریٹری دفاع پیٹے ہیگستھ نے ایک بیان میں پاکستانی سیکیورٹی فورسز کی کاوشوں کو سراہتے ہوئے کہا کہ پاکستانی فوج نے کابل دھماکے کے ماسٹر مائنڈ کی گرفتاری میں مدد فراہم کی، جس پر ہم ان کے شکر گزار ہیں۔ پیٹے ہیگستھ نے بائیڈن انتظامیہ کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ امریکی حکومت کی نااہلی کی وجہ سے طالبان کو اربوں ڈالر کا اسلحہ مل گیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ جب 2021 میں افغانستان سے انخلا کے دوران کابل میں دھماکا ہوا، تو کسی بھی امریکی فوجی افسر کو ذمہ دار نہیں ٹھہرایا گیا، لیکن ٹرمپ انتظامیہ نے دہشت گردوں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کا عزم کیا تھا۔ پیٹے ہیگستھ نے کہا کہ امریکی سینٹ کام نے پاکستان کے ساتھ اطلاعات کا تبادلہ کیا اور اس تعاون کے نتیجے میں شریف اللہ کو گرفتار کیا گیا۔ ان کے مطابق، یہ گرفتاری ٹرمپ انتظامیہ کی پالیسیوں کی وجہ سے ممکن ہوئی۔ انہوں نے کہا، "پاکستان نے ہمارے ساتھ تعاون کیا، اور ہم دہشت گرد کی گرفتاری میں مدد فراہم کرنے پر پاکستان کا خصوصی شکریہ ادا کرتے ہیں۔" یہ پیش رفت پاکستان اور امریکہ کے درمیان انسدادِ دہشت گردی کے تعاون کو مزید مضبوط کرنے کی نشاندہی کرتی ہے۔ امریکی حکام کے مطابق، گرفتار دہشت گرد کو اب امریکہ منتقل کردیا گیا ہے، جہاں وہ قانونی کارروائی کا سامنا کرے گا۔
آڈیٹر جنرل آف پاکستان (اے جی پی) اجمل گوندل نے پبلک اکاؤنٹس کمیٹی (پی اے سی) کے اجلاس میں انکشاف کیا ہے کہ عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) نے پاکستان میں ریاستی اداروں کے آڈٹ میں تاخیر پر شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ یہ پیش رفت ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان 7 ارب ڈالر کے قرض پروگرام کے پہلے جائزے پر مذاکرات جاری ہیں۔ آئی ایم ایف نے حکومت پاکستان سے مطالبہ کیا ہے کہ آڈٹ کیسز کو جلد از جلد حل کیا جائے، کیونکہ تقریباً 6 لاکھ کیسز تاحال زیر التوا ہیں۔ اجلاس میں آڈیٹر جنرل نے بتایا کہ وزارتوں اور مختلف اداروں سے متعلق لاکھوں آڈٹ کیسز تاخیر کا شکار ہیں، اور پارلیمنٹ کی ہدایات کے باوجود کسی بھی ادارے میں چیف انٹرنل اکاؤنٹنٹ تعینات نہیں کیا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ قوانین پر عمل درآمد نہ ہونے کی وجہ سے مالیاتی آڈٹ کا نظام شدید متاثر ہو رہا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اداروں کے سیکریٹریز اور چیف فنانشل افسران آڈٹ کلیئر نہیں کر رہے، جبکہ 15 اداروں میں صرف چیف فنانشل افسران کام کر رہے ہیں اور وہاں چیف انٹرنل اکاؤنٹنٹ کی کوئی تعیناتی نہیں کی گئی۔ اجمل گوندل نے خبردار کیا کہ اداروں میں اندرونی آڈٹ کا نظام موجود نہ ہونے کی وجہ سے شفافیت اور احتساب کے عمل میں مشکلات پیش آ رہی ہیں، جبکہ پی اے سی کے پاس زیر التوا آڈٹ کیسز کی تعداد 30 ہزار سے تجاوز کر چکی ہے۔ کمیٹی نے وزارتوں اور دیگر متعلقہ اداروں سے ایک ماہ کے اندر تفصیلات طلب کر لی ہیں۔ ادھر، معاشی ماہرین کے مطابق، آئی ایم ایف کی قسط حاصل کرنے کے لیے حکومت کو سخت مالیاتی اقدامات کرنا ہوں گے۔ ڈان اخبار کی ایک رپورٹ کے مطابق، یکم اپریل سے نئے مالیاتی اقدامات کے تحت ترقیاتی اخراجات میں کمی، ریٹیل اور رئیل اسٹیٹ کے شعبے سے محصولات میں اضافہ اور مالی سال کی آخری سہ ماہی میں سخت مالیاتی نظم و ضبط نافذ کیا جا سکتا ہے۔ باخبر ذرائع کے مطابق، حکومت گزشتہ سال 7 ارب ڈالر کے توسیعی فنڈ سہولت (ای ایف ایف) کے تحت لیے گئے ہنگامی اقدامات کو دوبارہ فعال کرنے پر بھی غور کر رہی ہے، تاکہ محصولات کی کمی کو پورا کیا جا سکے اور آئی ایم ایف کی شرائط کو پورا کیا جا سکے۔
پشاور: پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما اور سینیٹر فیصل جاوید کو پشاور ایئرپورٹ پر امیگریشن حکام نے سعودی عرب جانے سے روک دیا۔ وہ عمرہ کی ادائیگی کے لیے روانہ ہو رہے تھے، تاہم ایف آئی اے حکام نے انہیں فلائٹ سے آف لوڈ کر دیا۔ فیصل جاوید کا کہنا ہے کہ پشاور ہائیکورٹ نے ان کے بیرون ملک جانے پر عائد پابندی ختم کر دی تھی اور ان کا نام پرویژنل نیشنل آئیڈینٹفیکیشن لسٹ (پی این آئی ایل) سے نکالنے کا حکم دیا تھا، لیکن ایف آئی اے حکام نے عدالتی احکامات پر عمل نہیں کیا۔ پی ٹی آئی رہنما نے کہا کہ انہوں نے ایئرپورٹ پر عدالتی حکم نامہ بھی دکھایا، اس کے باوجود انہیں سفر کی اجازت نہیں دی گئی۔ فیصل جاوید نے اس اقدام کو عدالتی احکامات کی توہین قرار دیا۔ قبل ازیں، پشاور ہائیکورٹ نے فیصل جاوید کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) سے نکالنے کا حکم دیتے ہوئے انہیں عمرہ کی ادائیگی کے لیے جانے کی اجازت دی تھی۔ عدالت نے اپنے دو صفحات پر مشتمل فیصلے میں کہا تھا کہ درخواست گزار کچھ مقدمات میں بری ہو چکے ہیں، اس لیے ان کا نام ای سی ایل سے خارج کیا جائے۔ عدالتی حکم میں مزید کہا گیا تھا کہ فیصل جاوید کی وطن واپسی پر قانون نافذ کرنے والے ادارے ان کے خلاف معاملات کا دوبارہ جائزہ لے سکتے ہیں۔

Back
Top