خبریں

معاشرتی مسائل

Threads
0
Messages
0
Threads
0
Messages
0
None

طنز و مزاح

Threads
0
Messages
0
Threads
0
Messages
0
None
سابق وزیر اعظم اور عوام پاکستان پارٹی کے سربراہ شاہد خاقان عباسی نے انکشاف کیا ہے کہ اسلام آباد کے ایک ہوٹل میں قومی کانفرنس منعقد کرنے سے حساس اداروں اور پولیس نے روکا۔ ان کے مطابق، اس میں حکومت کا کوئی قصور نہیں کیونکہ اسے شاید اس معاملے کا علم ہی نہ ہو اور نہ ہی اس کے پاس کوئی اختیار ہے۔ انہوں نے موجودہ حکومت کو "ہائیبرڈ حکومت" قرار دیتے ہوئے کہا کہ ملکی معاملات میں آرمی چیف کی مداخلت کا تاریخ بتائے گی۔ آج ٹی وی کے پروگرام "اسپاٹ لائٹ" میں میزبان منیزے جہانگیر سے گفتگو کرتے ہوئے شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ ماضی میں عمران خان بھی ایک ہائیبرڈ حکومت چلاتے تھے۔ انہوں نے اپنی گرفتاری کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ بعد میں عمران خان نے اس کا الزام سابق آرمی چیف جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ پر ڈال دیا اور کہا کہ انہیں اس بارے میں کچھ معلوم نہیں تھا۔ عمران خان کے امریکا کو لکھے گئے خط پر تبصرہ کرتے ہوئے شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ ملکی معاملات کو ملک کے اندر ہی حل ہونا چاہیے۔ ان کے بقول، امریکا کا یہ کام نہیں کہ وہ آ کر دیکھے کہ پاکستان آئین کے مطابق چل رہا ہے یا نہیں، بلکہ یہ ذمہ داری سیاسی قیادت کی ہے کہ وہ ملکی مسائل پر بات کرے۔ انہوں نے عمران خان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ انہیں سوچنا چاہیے کہ انہوں نے کتنی بار آئین توڑا، قانون کی حکمرانی کی خلاف ورزی کی اور انسانی حقوق کو پامال کیا۔ ان کے مطابق، ان تمام چیزوں سے عمران خان کو سبق حاصل کرنا چاہیے۔ موجودہ حکومت پر تنقید کرتے ہوئے عوام پاکستان پارٹی کے سربراہ کا کہنا تھا کہ موجودہ حکمرانوں نے 2018 کے بعد اسٹیبلشمنٹ کو بہت زیادہ اسپیس دی، جس کا خمیازہ آج بھگتنا پڑ رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کے اقدامات کی وجہ سے عوام اب عمران خان کے دور کو بھی بھول چکے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ پاکستان میں کئی لوگ بغیر کسی سیاسی جماعت کے سینیٹر بن جاتے ہیں، اور بلوچستان کے ایک سیاستدان تو دو مرتبہ چیئرمین سینیٹ بھی بنے، جو کہ ایک تماشا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کو ملکی مسائل پر آواز بلند کرنی چاہیے اور عوام کے حقیقی مسائل پر توجہ دینی چاہیے۔
بلوچستان کے ضلع قلات میں قومی شاہراہ پر سیکیورٹی فورسز کی گاڑی کے قریب خودکش دھماکا ہوا، جس کے نتیجے میں ایک سیکیورٹی اہلکار شہید جبکہ چار زخمی ہوگئے۔ ڈپٹی کمشنر قلات نے تصدیق کی ہے کہ دھماکا خودکش تھا اور ابتدائی تحقیقات کے مطابق حملہ آور ایک خاتون تھی۔ دھماکا اس وقت ہوا جب مڈوے کے قریب سیکیورٹی فورسز کا قافلہ گزر رہا تھا۔ دھماکے کے نتیجے میں زخمی ہونے والے اہلکاروں کو فوری طور پر اسپتال منتقل کر دیا گیا، جہاں انہیں طبی امداد فراہم کی جا رہی ہے۔ قلات دھماکے سے ایک روز قبل بلوچستان کے ضلع خضدار میں جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی) بلوچستان کے دو رہنماؤں کو گاڑی پر فائرنگ کرکے قتل کر دیا گیا تھا۔ مقتولین میں غلام سرور اور مولوی امان اللہ شامل تھے، جبکہ واقعے میں دو دیگر افراد زخمی ہوئے۔ اسسٹنٹ کمشنر کے مطابق جے یو آئی رہنماؤں کو سوراب سے واپسی پر تراسانی میں نشانہ بنایا گیا۔ انتظامیہ کے مطابق واقعے کے محرکات تاحال معلوم نہیں ہو سکے اور تحقیقات جاری ہیں۔ بلوچستان میں حالیہ دنوں میں ہونے والے ان پرتشدد واقعات نے خطے میں سیکیورٹی صورتحال پر ایک بار پھر سوالیہ نشان کھڑا کر دیا ہے۔
لاہور: پنجاب پولیس کے اعداد و شمار کے مطابق 2023 کے مقابلے میں 2024 میں صوبے میں ریپ، قتل، اور اغوا کے واقعات میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ رپورٹ کے مطابق، 2024 میں کل 4,257 ریپ کیسز درج کیے گئے، جو کہ 2023 کے مقابلے میں 105 زیادہ ہیں۔ اس کے علاوہ، گینگ ریپ کے کیسز میں بھی 100 فیصد سے زائد اضافہ ہوا، 2023 میں 488 کیسز رپورٹ ہوئے تھے، جبکہ 2024 میں یہ تعداد 1,007 تک پہنچ گئی۔ پنجاب پولیس کی ویب سائٹ کے مطابق، ریپ کے 4,257 کیسز میں سے 2,764 کیسز میں چالان جمع کرایا گیا، 455 کیسز کی تفتیش جاری ہے، جبکہ 1,027 کیسز مسترد کر دیے گئے اور 11 کیسز کا کوئی سراغ نہیں مل سکا۔ اعداد و شمار کے مطابق، 2023 کے مقابلے میں اغوا کے کیسز میں بھی 6,000 کا اضافہ دیکھا گیا۔ 2023 میں 24,746 اغوا کے کیسز رپورٹ ہوئے تھے، جبکہ 2024 میں یہ تعداد بڑھ کر 30,137 ہو گئی۔ اسی طرح قتل کے کیسز میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ 2024 میں 5,121 قتل کے واقعات درج کیے گئے، جن میں سے 3,916 کیسز میں چالان جمع کیا گیا، جبکہ 717 کیسز کی تفتیش جاری ہے۔ پنجاب پولیس کے مطابق، 2023 میں کل 11,10,525 مقدمات درج کیے گئے تھے، جبکہ 2024 میں یہ تعداد بڑھ کر 11,42,664 ہو گئی۔ ملزمان کی بری ہونے کی شرح بھی سزا پانے والوں سے زیادہ رہی۔ 2024 میں 1,08,903 افراد کو سزا دی گئی، جبکہ 1,77,267 ملزمان بری ہو گئے۔ جرائم کے دیگر شعبوں میں کچھ بہتری بھی دیکھی گئی۔ پنجاب میں 2023 کے مقابلے میں 2024 میں چوری، ڈکیتی، اور گاڑی چوری کے واقعات میں کمی واقع ہوئی۔ 2023 میں ڈکیتی کے 1,708 کیسز رپورٹ ہوئے تھے، جو 2024 میں کم ہو کر 1,265 رہ گئے۔ اسی طرح، گاڑی چوری کے کیسز بھی کم ہو کر 1,00,853 پر آ گئے۔ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے جنرل سیکرٹری حارث خلیق کے مطابق، ریپ کیسز میں اضافے کے دو ممکنہ پہلو ہیں۔ ایک یہ کہ واقعی جرائم میں اضافہ ہو رہا ہے، دوسرا یہ کہ اب پہلے کے مقابلے میں زیادہ کیسز رپورٹ کیے جا رہے ہیں۔ انہوں نے تجویز دی کہ حکومت کو ایسے سنگین جرائم میں خود فریق بن کر مقدمات کی پیروی کرنی چاہیے تاکہ بااثر افراد سزا سے بچ نہ سکیں۔
اسلام آباد: قومی اسمبلی نے اخراجات میں کمی کے لیے 200 سے زائد ملازمین کو برطرف کر دیا، لیکن اسی دوران اراکینِ پارلیمنٹ کی تنخواہوں میں تقریباً 300 فیصد اضافہ بھی کر دیا گیا۔ سرکاری دستاویزات کے مطابق، اسمبلی سیکریٹریٹ نے بجٹ میں سالانہ ایک ارب روپے کی ممکنہ بچت کے لیے "رائٹ سائزنگ" کے تحت 220 ملازمین کو برطرف کیا، تاہم ممبرانِ اسمبلی کی بنیادی تنخواہ میں نمایاں اضافہ کر دیا گیا ہے۔ پارلیمانی سال کے اختتام پر جاری کردہ سالانہ رپورٹ میں قومی اسمبلی سیکریٹریٹ نے اخراجات کم کرنے کے لیے متعدد پالیسی اقدامات کا ذکر کیا ہے۔ اسپیکر سردار ایاز صادق کی سربراہی میں قومی اسمبلی کی فنانس کمیٹی نے ان اصلاحات کی منظوری دی، جن کے مطابق غیر ضروری عہدے ختم کیے گئے اور سرکاری اخراجات میں کمی کی گئی۔ پہلے دو مرحلوں میں گریڈ 1 سے 19 تک کے ملازمین کی برطرفیاں کی گئیں، جس سے اسمبلی کے اخراجات میں مجموعی طور پر 56 کروڑ 30 لاکھ روپے کی بچت ہوئی۔ پہلے مرحلے میں 90 غیر ضروری عہدے ختم کیے گئے، جس سے سالانہ 25 کروڑ 58 لاکھ 40 ہزار روپے کی بچت ہوئی۔ دوسرے مرحلے میں 130 مزید عہدے ختم کیے گئے، جس سے سالانہ 3 کروڑ 75 لاکھ روپے کی بچت ممکن ہوئی۔ اب ایک اور مرحلہ شروع کیا جا رہا ہے، جس کے تحت مزید اخراجات کم کیے جائیں گے تاکہ سالانہ ایک ارب روپے تک کی مجموعی بچت کی جا سکے۔ قومی اسمبلی کی رپورٹ میں اس بات کا ذکر نہیں کیا گیا کہ اراکینِ پارلیمنٹ کی بنیادی تنخواہوں میں 300 فیصد اضافہ کر دیا گیا ہے۔ ذرائع کے مطابق، اراکینِ اسمبلی کی بنیادی تنخواہ ایک لاکھ 80 ہزار روپے سے بڑھا کر 5 لاکھ 19 ہزار روپے کر دی گئی ہے۔ یہ واضح نہیں کہ اسمبلی کے ملازمین کو برطرف کرکے بچائی گئی رقم اراکینِ پارلیمنٹ کی بڑھتی ہوئی تنخواہوں کے اخراجات کو کس طرح پورا کرے گی۔ قومی اسمبلی سیکریٹریٹ نے رپورٹ میں ان برطرفیوں کو اسمبلی کے مالی استحکام اور آپریشنز کو بہتر بنانے کی کوشش قرار دیا ہے، تاہم ملازمین کی برطرفی اور اراکینِ اسمبلی کی تنخواہوں میں اضافے کے تضاد پر سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔ تنخواہوں میں اضافے کے ساتھ ساتھ، اسمبلی سیکریٹریٹ کے کئی دیگر اخراجات بھی برقرار ہیں، جس سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اصل میں بچت کا مقصد کیا تھا؟ کیا یہ مالی نظم و ضبط کا حصہ ہے یا پھر وسائل کی ترجیحات کو از سرِ نو ترتیب دینے کا کوئی اور منصوبہ؟
مالی سال کے پہلے آٹھ ماہ میں ٹیکس وصولی میں 606 ارب روپے کے خسارے کے دوران، ایک سینئر خاتون کسٹمز افسر کی اچانک معطلی نے ٹیکس انتظامیہ میں شدید بے چینی پیدا کر دی ہے۔ یہ فیصلہ اس وقت سامنے آیا جب انہوں نے وزیر خزانہ کے دفتر کی جانب سے ایک متنازعہ حکم پر سوال اٹھایا، جس میں انہیں ایک ادھار لی گئی گاڑی پر قومی پرچم لگانے کی ہدایت دی گئی تھی۔ شہباز رانا کی خبر کے مطابق، گریڈ 20 کی کلیکٹر کسٹمز اسلام آباد، جو اپنی دیانت داری اور پیشہ ورانہ صلاحیتوں کے باعث چار ماہ قبل اس عہدے پر تعینات ہوئی تھیں، کو 26 فروری کو اچانک ہٹا دیا گیا۔ ان کی معطلی اس وقت عمل میں آئی جب انہوں نے وزیر خزانہ کے دفتر سے رات 8:30 بجے موصول ہونے والے حکم پر اعتراض کیا۔ اس حکم میں ان سے کہا گیا تھا کہ وہ ایک غیر کسٹم شدہ گاڑی پر قومی پرچم لگانے کا بندوبست کریں۔ کسٹمز افسران کے مطابق، کسمٹز اسلام آباد کی کلیکٹر کی ذمہ داری نہیں تھی کہ وہ پہلے وزیر خزانہ کے لیے پشاور جانے کے لیے غیر کسٹم شدہ گاڑی فراہم کرتی اور پھر اس پر پرچم لگاتی۔ وزیر خزانہ نے بدھ کو پشاور کا سرکاری دورہ کیا تھا۔ کسٹمز افسران کے مطابق، مذکورہ افسر کو وزیر خزانہ کے لیے غیر کسٹم شدہ گاڑی فراہم کرنے کے مطالبے پر پہلے ہی تحفظات تھے، کیونکہ یہ کلیکٹر کسٹمز اسلام آباد کے دائرہ اختیار میں نہیں آتا۔ تاہم، جب انہیں مزید حکم دیا گیا کہ وہ اس گاڑی پر قومی پرچم لگوائیں، تو انہوں نے اس درخواست کی قانونی حیثیت پر سوال اٹھایا۔ اس پر وزیر خزانہ کے دفتر کے عملے نے ناراضگی کا اظہار کیا اور چند ہی گھنٹوں میں ان کی معطلی کے احکامات جاری کر دیے گئے۔ ایک سینئر کسٹمز افسر نے بتایا، "انہیں صرف اس لیے ہٹایا گیا کیونکہ انہوں نے وزیر خزانہ کے دفتر کے ایک اہلکار سے یہ کہنے کی جسارت کی کہ رات گئے قومی پرچم لگوانا ایک مشکل کام ہوگا۔" پاکستان کسٹمز آفیسرز ایسوسی ایشن نے اس اقدام پر سخت ردعمل دیتے ہوئے اسے اختیارات کے ناجائز استعمال سے تعبیر کیا اور کہا کہ، "یہ ایک خطرناک رجحان ہے، جو افسران کی دیانت داری اور پیشہ ورانہ فیصلوں کو دبانے کی کوشش ہے۔ یہ بیوروکریسی میں ایک ایسا کلچر نافذ کرنے کے مترادف ہے، جہاں میرٹ اور فیصلہ سازی کے بجائے، بغیر سوال کیے احکامات ماننے پر زور دیا جا رہا ہے۔" ایسوسی ایشن نے خاتون افسر کی معطلی کے احکامات کو فوری طور پر واپس لینے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ، "یہ فیصلہ منسوخ کیا جائے تاکہ بیوروکریسی میں خوف کی فضا پیدا نہ ہو۔" ایسوسی ایشن نے ان افسران کی معطلی پر بھی احتجاج کیا جنہوں نے ذاتی وجوہات کی بنا پر اپنے آبائی علاقوں میں تعیناتی کی درخواست دی تھی اور ایف بی آر چیئرمین سے مطالبہ کیا کہ ان مسائل کو فوری طور پر حل کیا جائے۔ بیان میں خبردار کیا گیا کہ اگر ان معاملات کو نہ دیکھا گیا تو افسران میں مزید بددلی پھیل سکتی ہے۔ ذرائع کے مطابق، وزیر خزانہ جو کہ نجی شعبے سے آئے ہیں، سرکاری گاڑی کے بجائے ذاتی گاڑیوں کا استعمال کرتے ہیں۔ تاہم، ان کے دفتر کے بعض اہلکار کسٹمز کے ضبط شدہ نان ڈیوٹی پیڈ گاڑیوں کو بھی ذاتی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کے خواہاں رہے ہیں۔ اسی پالیسی کے تحت، 26 فروری کو وزیر خزانہ کے دفتر نے کلیکٹر کسٹمز اسلام آباد کو ہدایت دی کہ وہ ایک گاڑی فراہم کریں، جو بعد میں وزیر خزانہ کے قافلے کے لیے مختص کی گئی۔ فیڈرل بورڈ آف ریونیو (FBR) کی جانب سے اس معاملے پر کوئی باضابطہ بیان جاری نہیں کیا گیا۔ تاہم، ایف بی آر کے ممبر کسٹمز جنید جلیل سے اس معاملے پر تبصرے کے لیے رابطہ کیا گیا، لیکن انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔ ٹیکس وصولیوں کے موجودہ دباؤ میں، جہاں ایف بی آر پہلے ہی آئی ایم ایف کے اہداف پورے کرنے میں مشکلات کا شکار ہے، اس قسم کے متنازعہ فیصلے مزید مسائل پیدا کر سکتے ہیں۔ فروری میں بھی ایف بی آر 983 ارب روپے کے ہدف کے مقابلے میں 845 ارب روپے ہی جمع کر سکا، جو کہ مسلسل ساتواں مہینہ ہے جب ٹیکس ہدف پورا نہیں ہو سکا۔ اس معاملے پر بشری گوہر نے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا وزارت خارجہ اور ترجمان ایف بی آر اس کی وضاحت کریں کہ اسلام آباد کی کلیکٹر کسٹمز، جو گریڈ 20 کی خاتون افسر تھیں، کو 26 فروری کو اچانک ہٹا دیا گیا کیونکہ انہوں نے وزیر خزانہ کے دفتر کے غیر ضروری حکم پر سوال اٹھایا تھا کہ رات 8:30 بجے ایک ادھار لی گئی گاڑی پر قومی پرچم لگایا جائے مزمل اسلم نے وزیر خزانہ کی حمایت کرتے ہو کہا کہ اگر اورنگزیب خان اپنی پوری مدت کے دوران اپنی ذاتی گاڑی استعمال کر رہے تھے، تو مجھے نہیں لگتا کہ انہوں نے خود کوئی اور گاڑی مانگی ہوگی۔ یقینی طور پر یہ کسی پروٹوکول کے شوقین اسٹاف کی غلطی ہوگی۔ میں جانتا ہوں کہ عام طور پر آپ کا اسٹاف ہی ایسی بے تُکی تجاویز دیتا ہے۔ اس لیے اورنگزیب خان کو الزام نہیں دینا چاہیے، کیونکہ وہ ایک عاجز انسان ہیں اور ویسے بھی گاڑیوں اور دیگر سہولیات کی ان کو کوئی کمی نہیں۔ اس پر شہباز رانا نے اپنے ردعمل میں کہا میں مانتا ہوں کہ اورنگزیب خان کو پروٹوکول گاڑیوں کی ضرورت نہیں تھی، لیکن پھر بھی وہ یہ سب کرنے پر مجبور ہوئے۔ یہ کوئی عام اسٹاف کا فرد نہیں بلکہ گریڈ 20 کا افسر تھا، جو وزیر خزانہ کا خاص معاون تھا۔ خاتون افسر کو ہٹانے کے احکامات وزیر خزانہ نے خود جاری کیے، اس کا مطلب ہے کہ وہ اپنے اسٹاف کے ہر عمل کے خود ذمہ دار ہیں۔
وزیراعظم شہباز شریف نے رمضان پیکیج 2025 کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ 40 لاکھ گھرانوں (تقریباً 2 کروڑ پاکستانیوں) کو ڈیجیٹل والٹ کے ذریعے 5 ہزار روپے فی خاندان فراہم کیے جائیں گے۔ اللہ کا شکر ہے کہ اس سال رمضان المبارک کے مہینے میں مہنگائی پہلے سے کم ہے۔ ڈان نیوز کے مطابق اسلام آباد میں رمضان پیکیج کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ دہشت گردی کا قلع قمع کیا جائے گا اور اس ناسور کا خاتمہ کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ ایسی قبر کھو دیں گے کہ دوبارہ اس ناسور کا نکلنا ممکن نہیں ہوگا، اور ہم اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھیں گے جب تک اس ناسور کو دفن نہیں کر دیتے۔ وزیراعظم نے کہا کہ اکوڑہ خٹک میں خودکش دھماکے میں مولانا حامد الحق اور دیگر پاکستانیوں کی شہادت ایک المناک واقعہ ہے۔ یہ قدیم جامعہ ہے جہاں اسلامی و عصری تعلیم فراہم کی جاتی ہے، اور یہ سچے پاکستانی ہیں۔ اس واقعے پر قوم افسردہ ہے اور ہم اس دھماکے کی شدید مذمت کرتے ہیں۔ امید ہے کہ خیبرپختونخوا حکومت ان قاتلوں کو گرفتار کرکے انہیں قرار واقعی سزا دے گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ 2018 میں دہشت گردی کا خاتمہ ہوچکا تھا، جس کے لیے 80 ہزار پاکستانیوں نے جانوں کی قربانیاں دیں۔ امن لانے کے لیے افواج پاکستان کے افسران، جوانوں، پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں نے جام شہادت نوش کیا۔ تاہم، ایک بار پھر دہشت گردی سر اٹھا چکی ہے، اس کی وجوہات ہم سب جانتے ہیں لیکن اس وقت میں تفصیلات میں نہیں جانا چاہتا۔ شہباز شریف نے کہا کہ اربوں اور کھربوں روپے کے وہ محصولات جو ریاست پاکستان نے وصول کرنے ہیں، مختلف عدالتوں اور فورمز پر زیر التوا ہیں۔ 2022 اور 2023 میں ڈالر آسمانوں سے باتیں کر رہا تھا اور بینکوں نے اس دوران ونڈفال پرافٹ بنایا۔ ہم نے ان پر ونڈفال ٹیکس لگایا، لیکن ان بینکوں نے حکم امتناع لے لیے۔ انہوں نے بتایا کہ سندھ ہائی کورٹ کے جج نے گزشتہ ہفتے حکم امتناع ختم کیا، جس کے بعد گورنر اسٹیٹ بینک نے ایک ہی دن میں 23 ارب روپے بینکوں سے نکال کر خزانے میں لے آئے، اور ان کی یہ کوششیں قابل تعریف ہیں۔ یہ ابھی صرف ابتدا ہے، ہم اربوں روپے منافع بنانے والے بینکوں سے مزید رقم نکلوائیں گے۔ وزیراعظم نے کہا کہ اس سال رمضان پیکیج کے لیے 20 ارب روپے کی خطیر رقم مختص کی گئی ہے، جس کے ذریعے 40 لاکھ پاکستانی خاندان مستفید ہوں گے۔ پچھلے سال یہ رقم 7 ارب روپے تھی، اور اس بار اس رقم میں تقریباً 200 فیصد اضافہ کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ رمضان پیکیج پورے پاکستان کے لیے بلاتفریق متعارف کروایا گیا ہے، جس میں کراچی سے گلگت تک تمام صوبوں کے شہروں، آزاد جموں و کشمیر کے مستحق خاندانوں کو شامل کیا گیا ہے۔ اس پیکیج کو شفاف بنانے کے لیے اسٹیٹ بینک، نادرا اور دیگر ٹیک اداروں کی کاوشیں لائق تحسین ہیں، اور میں ان تمام اداروں کا شکر گزار ہوں جنہوں نے محنت کر کے رمضان پیکیج مستحق لوگوں تک پہنچانے میں کردار ادا کیا۔ وزیراعظم نے کہا کہ ہم یوٹیلیٹی اسٹورز سے جان چھڑا رہے ہیں اور انہیں بہتر بنا کر ان کی نجکاری کی جائے گی۔ اس سال رمضان پیکیج کے لیے لائنیں نہیں لگیں گی بلکہ با عزت طور پر لوگوں کو ڈیجیٹل والٹ سے ریلیف مل جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ یوٹیلیٹی اسٹورز میں بدترین کرپشن کی جاتی تھی، لیکن اب نظام بن چکا ہے اور اس رمضان پیکیج کی نگرانی بھی کی جائے گی۔ شہباز شریف نے آخر میں دعا کی کہ اللہ تعالیٰ عوام کے لیے ملک کے اداروں کی کوششیں قبول فرمائے، رمضان کی برکت سے پاکستان سے دکھ، تکالیف اور پریشانیوں کا خاتمہ ہو، اور پاکستان ہمیشہ قائم و دائم رہے۔
صدر مملکت آصف علی زرداری نے حکومت سے ایک سالہ کارکردگی کی رپورٹ طلب کرلی ہے تاکہ وہ 10 مارچ کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے اپنے خطاب میں حکومتی اقدامات اور کامیابیوں پر روشنی ڈال سکیں۔ یہ خطاب دوسرا پارلیمانی سال باضابطہ طور پر شروع کرنے کی غرض سے کیا جائے گا۔ ذرائع کے مطابق، ایوانِ صدر نے حکومت سے یہ رپورٹ اس لیے طلب کی ہے تاکہ صدر زرداری اپنے خطاب میں حکومتی کارکردگی کے اہم نکات پر تفصیل سے بات کرسکیں۔ یہ رپورٹ خاص طور پر معیشت کے اہم اقدامات اور ان کے نتائج کو شامل کرے گی، اور غریب طبقے کے لیے کچھ اہم اعلانات بھی متوقع ہیں۔ اس ضمن میں ایوانِ صدر نے حکومت سے تفصیلات فراہم کرنے کی ہدایت بھی کی ہے۔ صدر آصف علی زرداری اپنے خطاب میں عالمی اور علاقائی امور پر بھی بات کریں گے، جن میں مسئلہ کشمیر اور فلسطین جیسے اہم مسائل شامل ہیں۔ ان کا خطاب عالمی سیاست میں پاکستان کے موقف کو اجاگر کرنے کی کوشش ہوگی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اپوزیشن کے ممکنہ احتجاج کے پیش نظر صدر کے خطاب کا دورانیہ 20 سے 25 منٹ تک رکھا گیا ہے، تاکہ وہ اپنی بات مکمل کرنے میں کامیاب رہیں۔ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کی صدارت اسپیکر قومی اسمبلی کریں گے، جبکہ اس اجلاس میں عسکری قیادت، گورنرز، وزرائے اعلیٰ اور صوبائی اسمبلیوں کے اسپیکرز کو بھی مدعو کیا جائے گا تاکہ وہ اس اہم اجلاس کا مشاہدہ کر سکیں۔
اسلام آباد: ایف بی آر نے رواں مالی سال کے پہلے آٹھ ماہ (جولائی تا فروری) کے دوران ٹیکس ریونیو میں 600 ارب روپے سے زائد کا شارٹ فال ریکارڈ کیا ہے۔ ذرائع کے مطابق ایف بی آر کا ہدف تھا کہ وہ 8 ماہ کے دوران 7947 ارب روپے کا ٹیکس ریونیو جمع کرے، لیکن ایف بی آر نے 7344 ارب روپے ٹیکس ریونیو جمع کیا، جس کے نتیجے میں 8 ماہ میں 603 ارب روپے کا شارٹ فال سامنے آیا۔ فروری کے مہینے میں ایف بی آر کا ہدف 983 ارب روپے تھا، مگر صرف 850 ارب روپے جمع کیے جا سکے، اس طرح فروری میں بھی ٹیکس ریونیو میں 133 ارب روپے کی کمی رہی۔ گزشتہ سات ماہ میں ایف بی آر کے ٹیکس ریونیو میں 468 ارب روپے کا شارٹ فال تھا، جو اب بڑھ کر 603 ارب روپے تک پہنچ چکا ہے۔
نائب امیرِ جماعتِ اسلامی لیاقت بلوچ نے کہا ہے کہ جمہوریت کے استحکام کے لیے حکومت و اپوزیشن جماعتوں کا ڈائیلاگ ضروری ہے۔ انہوں نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ رمضان کا چاند نظر نہیں آیا مگر عوام نے مہنگائی دیکھ لی ہے۔ نائب امیرِ جماعتِ اسلامی لیاقت بلوچ نے مزید کہا ہے کہ حکومت اور اداروں کا مہنگائی پر کنٹرول نہیں ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ گھی، چینی اشیائے ضروریہ کی قیمتیں بڑھنے کی ذمے دار حکومت ہے۔
ترجمان دفتر خارجہ شفقت علی خان نے ہفتہ وار بریفنگ میں کہا کہ پاکستان، امریکہ کی جانب سے ایف-16 پروگرام کے لیے 397 ملین ڈالرز کے اجرا کے فیصلے کا خیرمقدم کرتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاک-امریکہ تعلقات دیرینہ ہیں اور ایف-16 پروگرام بھی ان تعلقات کا حصہ ہے۔ ترجمان نے بریفنگ میں مزید بتایا کہ گزشتہ روز امریکہ سے 8 غیر قانونی پاکستانی وطن واپس پہنچے ہیں۔ ان افراد کی واپسی کے سلسلے میں پاکستان، امریکی حکام سے مسلسل رابطے میں ہے اور انہیں ڈی پورٹ کیے جانے میں سہولت فراہم کر رہا ہے۔ تاہم، ان افراد کی مکمل تفصیلات سے ایف آئی اے یا وزارت داخلہ آگاہ کر سکتی ہے۔ ترجمان کے مطابق، یہ امریکہ سے جلا وطن ہونے والے پاکستانیوں کا پہلا بیچ تھا۔ ایک سوال کے جواب میں، شفقت علی خان نے کہا کہ پاکستان میں موجود بیرونِ ملک منتقلی کے خواہشمند افغان شہریوں کے حوالے سے مختلف ممالک کے ساتھ مفاہمت موجود ہے۔ کچھ ممالک نے مخصوص تعداد میں افغانوں کو اپنے ملک لے جانے کی حامی بھری ہے، اور اس منتقلی کے لیے مخصوص ڈیڈ لائنز طے کی گئی ہیں۔ اگر ان ڈیڈ لائنز تک افغان شہریوں کی منتقلی ممکن نہ ہوئی، تو متعلقہ ادارے آئندہ کے لائحہ عمل کا فیصلہ کریں گے۔ ترجمان دفتر خارجہ نے افغانستان میں چھوڑے گئے جدید امریکی ہتھیاروں پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ معاملہ متعدد بار بین الاقوامی سطح پر اٹھایا جا چکا ہے۔ ان کے مطابق، یہ جدید ہتھیار دہشت گردوں کے ہاتھ لگ چکے ہیں اور پاکستان کے اندر دہشت گردی کے لیے استعمال ہو رہے ہیں۔ دفتر خارجہ کا کہنا تھا کہ پاکستان، افغانستان میں امن و استحکام کا خواہاں ہے، مگر وہاں موجود دہشت گرد عناصر اور جدید ہتھیاروں کی موجودگی خطے کی سلامتی کے لیے خطرہ ہیں۔
واشنگٹن میں قائم غیر سرکاری تنظیم فریڈم ہاؤس نے اپنی 2025 کی سالانہ رپورٹ جاری کر دی ہے، جس میں دنیا بھر کے ممالک میں شہری آزادیوں کا تجزیہ کیا گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق، گزشتہ سال کے دوران پاکستان سمیت 60 ممالک میں شہری آزادیوں میں کمی دیکھی گئی ہے، جبکہ 34 ممالک میں بہتری نظر آئی ہے۔ وائس آف امریکہ کی رپورٹ کے مطابق فریڈم ہاؤس کی رپورٹ کے مطابق، پاکستان کے مجموعی اسکور میں مزید کمی ہوئی ہے اور اسے 100 میں سے صرف 32 پوائنٹس دیے گئے ہیں، جو شہری آزادیوں کے حوالے سے ایک کمزور درجہ بندی ظاہر کرتا ہے۔رپورٹ میں پاکستان کو نیم آزاد ملک قرار دیا گیا ہے۔ شخصی آزادیوں کے انڈیکس میں بھی پاکستان کی کارکردگی پہلے کی نسبت مزید نیچے چلی گئی ہے، جو ملک میں سیاسی اور سماجی آزادیوں پر بڑھتی ہوئی پابندیوں کو ظاہر کرتا ہے۔ انٹرنیٹ کی آزادی میں پاکستان کو 100 میں سے صرف 27 نمبر دیے گئے ہیں۔پاکستان کا انٹرنیٹ کی آزادی میں سکور جنوبی ایشیا میں سب سے کم ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ایل سلواڈور، ہیٹی، کویت اور تیونس ان ممالک میں شامل ہیں جہاں گزشتہ سال کے دوران شہری آزادیوں میں سب سے زیادہ تنزلی دیکھی گئی۔ دوسری جانب، بنگلہ دیش، سری لنکا، اور شام جیسے ممالک میں صورتحال میں بہتری آئی ہے، جو ایک مثبت پیش رفت سمجھی جا رہی ہے۔ فریڈم ہاؤس کی رپورٹ میں پاکستان کے بارے میں زیادہ تر تنقید 2024 میں ہونے والے عام انتخابات اور مذہبی اقلیتوں کی صورتحال پر کی گئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق، پاکستان میں اگرچہ باقاعدگی سے کثیر الجماعتی انتخابات ہوتے ہیں، لیکن 2024 کے عام انتخابات میں فوج نے حکومت کی تشکیل اور پالیسی سازی میں غیر معمولی اثرورسوخ استعمال کیا۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ پاکستانی فوج اور ریاستی ادارے میڈیا کو ڈرانے دھمکانے میں ملوث رہے، جبکہ طاقت کے غیر قانونی استعمال پر انہیں جوابدہی سے استثنیٰ حاصل رہا۔ 2024 کے عام انتخابات کے حوالے سے رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ان میں دھاندلی ہوئی، سیاسی امیدواروں اور الیکشن ورکرز کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا، الیکشن قوانین میں رد و بدل کیا گیا، اور ریاستی وسائل کا غلط استعمال کیا گیا۔ فریڈم ہاؤس کی گزشتہ رپورٹوں میں بھی پاکستان میں مذہبی اور نسلی اقلیتوں کے خلاف امتیازی سلوک اور تشدد پر تنقید کی گئی تھی۔ نئی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ حکام نے اکثر اوقات شہری آزادیوں پر مخصوص پابندیاں عائد کیں، جبکہ مذہبی عسکریت پسندوں نے ریاست، اقلیتوں اور سیاسی مخالفین کے خلاف حملے جاری رکھے۔ یہ پہلا موقع نہیں کہ پاکستان میں ہونے والے انتخابات اور شہری آزادیوں کی صورتحال پر بین الاقوامی تنظیموں نے تنقید کی ہو۔ اس سے قبل بھی میڈیا اور انسانی حقوق کی تنظیمیں 2024 کے انتخابات میں دھاندلی اور ریاستی مداخلت پر سوالات اٹھا چکی ہیں۔ تاہم، پاکستانی حکومت ان الزامات کو بے بنیاد قرار دے کر مسترد کرتی رہی ہے
اکانومسٹ انٹیلی جنس یونٹ (ای آئی یو) کی جاری کردہ ڈیموکریسی انڈیکس رپورٹ کے مطابق 2024 میں پاکستان کی جمہوری درجہ بندی مزید تنزلی کا شکار ہو گئی ہے، جس کے نتیجے میں یہ دنیا کے 10 بدترین کارکردگی دکھانے والے ممالک میں شامل ہو گیا ہے۔ رپورٹ میں دنیا بھر کی 165 آزاد ریاستوں اور 2 خودمختار خطوں کا جائزہ لیا گیا ہے، جہاں جمہوریت کی صورت حال کا تجزیہ پانچ بنیادی نکات پر کیا گیا: انتخابی عمل، حکومت کی فعالیت، سیاسی شرکت، سیاسی ثقافت، اور شہری آزادی۔ ہر ملک کو ان نکات کی بنیاد پر چار زمروں میں درجہ دیا گیا، جن میں مکمل جمہوریت، ناقص جمہوریت، ہائبرڈ نظام، اور آمرانہ حکومت شامل ہیں۔ 2024 کی رپورٹ میں پاکستان کی عالمی درجہ بندی 6 درجے کم ہو کر 124 ویں نمبر پر پہنچ گئی، اور اسے آمرانہ حکومت کے زمرے میں شامل کر دیا گیا۔ مجموعی طور پر پاکستان کا اسکور 2.84 رہا، جو جمہوری کمزوریوں کی عکاسی کرتا ہے۔ تحقیق میں کہا گیا کہ دنیا بھر میں جمہوریت کا زوال جاری ہے اور پاکستان کی درجہ بندی میں گراوٹ اس رجحان کی تصدیق کرتی ہے کہ آمرانہ حکومتیں وقت کے ساتھ مزید سخت اور غیر جمہوری ہوتی جاتی ہیں۔ رپورٹ کے مطابق دنیا کی 39.2 فیصد آبادی ایسے ممالک میں رہتی ہے جہاں آمرانہ حکومتیں قائم ہیں، اور حالیہ برسوں میں یہ تناسب تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ اس وقت دنیا کے 60 ممالک کو آمرانہ حکومتوں کے زمرے میں شامل کیا گیا ہے۔ رپورٹ میں خطے کے تجزیے میں بتایا گیا کہ ایشیا اور آسٹریلیا میں جمہوری درجہ بندی مسلسل چھٹے سال گراوٹ کا شکار رہی، اور اس خطے میں اوسط اسکور 5.41 سے کم ہو کر 5.31 پر آگیا۔ رپورٹ کے مطابق بنگلہ دیش، جنوبی کوریا، اور پاکستان خطے میں بدترین کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے ممالک میں شامل رہے، جن کی عالمی درجہ بندی میں بالترتیب 25، 10 اور 6 درجے تنزلی ہوئی۔ 2024 میں دنیا کی نصف آبادی پر مشتمل 70 سے زائد ممالک میں انتخابات ہوئے، جن میں پاکستان بھی شامل تھا۔ رپورٹ کے مطابق ان انتخابات میں دھاندلی، ریاستی مداخلت اور سیاسی جبر جیسے مسائل نمایاں رہے، جو آمریت زدہ ممالک میں عام ہیں۔ آذربائیجان، بنگلہ دیش، بیلاروس، ایران، موزمبیق، پاکستان، روس، اور وینزویلا جیسے ممالک میں آمرانہ حکومتوں نے اقتدار برقرار رکھنے کے لیے ہر ممکن حربہ استعمال کیا۔ جنوبی ایشیا کے حوالے سے رپورٹ میں کہا گیا کہ خطے میں انتخابات دھوکا دہی اور تشدد سے متاثر رہے، اور پاکستان میں 8 فروری کو ہونے والے عام انتخابات میں ریاستی مداخلت اور سیاسی جبر کے الزامات لگائے گئے۔ جنوبی ایشیا میں جمہوریت کا مستقبل غیر یقینی قرار دیا گیا۔ ڈیموکریسی انڈیکس کے ڈائریکٹر جان ہوئی نے کہا کہ 2006 سے انڈیکس کے رجحان سے واضح ہے کہ آمرانہ حکومتیں مضبوط ہو رہی ہیں، جبکہ جمہوری نظام مشکلات کا شکار ہے۔ ان کے مطابق، عالمی سطح پر جمہوریتوں کو شدید چیلنجز کا سامنا ہے، جو مستقبل میں مزید پیچیدہ ہو سکتے ہیں۔
جیسے ہی ہم 2025 میں داخل ہوئے ہیں، میں پاکستان کی تاریخ کے سب سے ہنگامہ خیز اور آزمائشی دور پر غور کر رہا ہوں۔ اپنی قید تنہائی میں، میں ایک ایسے ملک کی افسوسناک حقیقت کا مشاہدہ کر رہا ہوں جو آمرانہ طرزِ حکمرانی کے شکنجے میں جکڑا جا چکا ہے۔ مگر ان تمام حالات کے باوجود، میں پاکستانی عوام کی ثابت قدمی اور ان کے انصاف کے لیے غیر متزلزل عزم پر پختہ یقین رکھتا ہوں۔ مجھ پر لگائے گئے سیاسی الزامات دراصل مجھے جمہوریت کے لیے جدوجہد سے روکنے کی ایک کوشش ہیں۔ لیکن یہ جنگ صرف میری ذات تک محدود نہیں ہے۔ پاکستان میں جمہوریت کا زوال دور رس نتائج کا حامل ہے۔ ایک غیر مستحکم پاکستان علاقائی سلامتی کے لیے خطرہ، تجارتی رکاوٹ اور عالمی جمہوری اقدار کی کمزوری کا باعث بن سکتا ہے۔ دنیا کو اس بحران کی سنگینی کو سمجھنا ہوگا، کیونکہ یہ صرف پاکستان کا مسئلہ نہیں بلکہ پورے جنوبی ایشیا اور اس سے آگے کے خطے کے استحکام کا سوال ہے۔ ایک ایسے ملک میں جہاں جمہوریت کا خاتمہ ہو رہا ہو اور جو علاقائی و عالمی سلامتی میں کلیدی کردار ادا کرتا ہو، وہاں جمہوری آوازوں کا دبایا جانا ایک خطرناک مثال قائم کرتا ہے۔ یہ ان تمام لوگوں کے لیے باعث تشویش ہونا چاہیے جو آزاد اور منصفانہ حکمرانی پر یقین رکھتے ہیں۔ گزشتہ سال میں سیاسی جبر کی انتہا دیکھی گئی۔ میری جماعت پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) اور اس کے حامیوں کے خلاف وحشیانہ کریک ڈاؤن نے دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیموں اور اقوامِ متحدہ نے جبری حراستوں اور فوجی عدالتوں میں سیاسی مقدمات کا دستاویزی ثبوت فراہم کیا ہے۔ اب تک 103 پی ٹی آئی کارکنوں اور عہدیداروں کو ان عدالتوں میں سزا دی جا چکی ہے، جو کہ پاکستان کے عالمی انسانی حقوق کے معاہدوں، بشمول بین الاقوامی معاہدہ برائے شہری و سیاسی حقوق (ICCPR) کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ یورپی یونین، برطانیہ اور امریکہ سمیت عالمی برادری نے ان سیاسی مقدمات پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ لیکن اس جبر کا سب سے زیادہ نقصان عام پاکستانیوں کو ہو رہا ہے۔ اگر پاکستان نے جمہوری اقدار کی پامالی جاری رکھی تو اسے یورپی یونین میں اپنی ترجیحی تجارتی حیثیت (GSP+) سے ہاتھ دھونا پڑ سکتا ہے، جو ہماری معیشت، خاص طور پر ٹیکسٹائل کے شعبے کے لیے تباہ کن ہوگا۔ مگر اقتدار میں بیٹھے افراد اپنی انتقامی پالیسیوں سے باز نہیں آ رہے، بلکہ ہ میرے اور میرے ساتھیوں کے خلاف جھوٹے الزامات اور پروپیگنڈہ کر کے عالمی سطح پر پاکستان کی ساکھ کو خراب کر رہے ہیں۔ دنیا کو اس بات پر بھی دھیان دینا چاہیے کہ پاکستان میں جمہوریت کے ختم ہونے کے ساتھ ساتھ خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ محض اتفاق نہیں، بلکہ ان پالیسیوں کا نتیجہ ہے جو ملک کے حقیقی مسائل کو نظر انداز کر کے اپوزیشن کو کچلنے پر مرکوز ہیں۔ ان اہم سیکیورٹی خطرات سے نمٹنے کے بجائے، پاکستانی فوج کے وسائل سیاسی مخالفین، جیسے کہ پی ٹی آئی، کے خلاف انتقامی مہم پر لگا دیے گئے ہیں۔ عدلیہ، جو انصاف کی فراہمی میں ایک مضبوط ستون ہونی چاہیے، بدقسمتی سے سیاسی انتقام کا آلہ بن چکی ہے۔انسدادِ دہشت گردی کی عدالتوں میں پی ٹی آئی کے پرامن کارکنوں کو ایسے مقدمات میں پھنسا کر سزا دی جا رہی ہے جو سراسر بے بنیاد ہیں۔ ہزاروں گھروں پر چھاپے مارے گئے، خاندانوں کو ہراساں کیا گیا، حتیٰ کہ خواتین اور بچوں کو بھی اس جبر سے نہیں بخشا گیا۔ ہمارے سوشل میڈیا کارکن، بیرون ملک مقیم حامی اور عام لوگ جو ہماری حمایت کر رہے ہیں، ان کے خاندانوں کو دھمکایا اور اغوا کیا گیا تاکہ انہیں خاموش کرایا جا سکے۔ پی ٹی آئی نے دستاویزی ثبوتوں کے ساتھ یہ ثابت کیا ہے کہ نومبر کے آخر میں اسلام آباد میں ہونے والے حکومت مخالف احتجاج کے دوران سیکیورٹی فورسز کے ہاتھوں ہمارے 12 کارکن قتل کیے گئے۔ اگرچہ مجھے موجودہ حکومت پر شدید تحفظات ہیں، بشمول انتخابات میں دھاندلی کے الزامات جن کے تحت یہ حکومت برسرِ اقتدار آئی، میں نے پی ٹی آئی کی قیادت کو حکومت کے ساتھ مذاکرات کی اجازت دی تاکہ مزید تشدد اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو روکا جا سکے۔ ہمارا مطالبہ واضح تھا: ایک عدالتی کمیشن تشکیل دیا جائے جو پی ٹی آئی کے کارکنوں اور نہتے مظاہرین پر کیے گئے حملوں کی آزادانہ تحقیقات کرے۔ تمام سیاسی قیدیوں کو فوری رہا کیا جائے۔ لیکن اس کے بدلے میں مجھے گھر میں نظر بندی کی پیشکش کی گئی اور ساتھ میں پی ٹی آئی کو مبہم انداز میں "سیاسی جگہ" دینے کی بات کی گئی، جسے میں نے مکمل طور پر مسترد کر دیا۔ پارلیمنٹ کو آمرانہ پالیسیوں کو نافذ کرنے کیلئے ربڑ سٹیمپ بنا دیا گیا ہے ۔ عدلیہ کی آزادی ختم کرنے، آزادیِ اظہار کو دبانے اور اختلافِ رائے کو جرم قرار دینے جیسے قوانین بغیر کسی بحث کے منظور کرائے جا رہے ہیں۔ اور سیاسی اختلاف کو "ریاست دشمنی" قرار دے کر سخت سزائیں دی جا رہی ہیں، جبری گمشدگیاں اور سخت انسدادِ دہشت گردی قوانین کے تحت مقدمات بن چکے ہیں۔ پاکستان میں جمہوریت کی آخری نشانیاں تقریباً ختم ہو چکی ہیں۔ یہ انتہائی ضروری ہے کہ پاکستان کے آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر فوج کے آئینی دائرہ کار کو تسلیم کریں اور اس کی حدود کا احترام کریں۔ صرف اسی صورت میں پاکستان حقیقی جمہوری نظام کے تحت ترقی کر سکتا ہے—ایسا نظام جو عوام کے ذریعے، عوام کے لیے منتخب کیا گیا ہو۔ تاریخ گواہ ہے کہ پاکستان میں آمریتیں عارضی ہوتی ہیں، مگر وہ جو تباہی پھیلاتی ہیں، اس کے اثرات نسلوں تک باقی رہتے ہیں۔ ہماری قوم کا مستقبل جمہوریت کے استحکام سے وابستہ ہے، نہ کہ اس کے خاتمے سے۔ موجودہ تاریک حالات کے باوجود، پاکستانی عوام پہلے سے کہیں زیادہ باشعور ہو چکے ہیں۔ وہ جھوٹ کو پہچان چکے ہیں، اور ان کی بیداری مجھے امید دیتی ہے۔ انصاف اور عزت کے لیے لڑنا آسان نہیں، مگر یہ ایک ایسی جدوجہد ہے جو ہر حال میں جاری رہنی چاہیے۔ مجھے پورا یقین ہے کہ سچ کی فتح ہوگی، اور ہم مل کر ایک ایسا پاکستان تعمیر کریں گے جہاں شہریوں کے حقوق کا تحفظ ہو اور جمہوریت بحال ہو۔ دنیا اس وقت ایک اہم دوراہے پر کھڑی ہے۔ عالمی مسائل جیسے جنگیں، اقتصادی عدم استحکام اور دیگر چیلنجز بڑھ رہے ہیں، اور اس وقت دنیا کو ایماندار اور اصولی قیادت کی ضرورت ہے اسی تناظر میں، میں صدر ڈونلڈ جے ٹرمپ کو جنوری میں ان کی تاریخی حلف برداری پر دلی مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ ان کی شاندار سیاسی واپسی ثابت کرتی ہے کہ عوامی خواہش کو دبایا نہیں جا سکتا۔ ان کی پہلی مدت میں، امریکہ اور پاکستان کے درمیان باہمی احترام پر مبنی مضبوط تعلقات قائم رہے۔ اب جب کہ وہ دوبارہ منصب سنبھال رہے ہیں، ہم ان کی انتظامیہ سے توقع رکھتے ہیں کہ وہ جمہوری اصولوں، انسانی حقوق، اور قانون کی حکمرانی کے عزم کو مزید مستحکم کریں گے، خاص طور پر ان خطوں میں جہاں آمریت جمہوری اقدار کو خطرے میں ڈال رہی ہے۔ ایک جمہوری اور مستحکم پاکستان بین الاقوامی کمیونٹی کے مفاد میں ہے، اور ہم اس توازن کو بحال کرنے کے لیے اپنی کوششیں جاری رکھیں گے۔ اس کے علاوہ، میں ان کی انتظامیہ سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ اقتصادی تعلقات کو مزید مضبوط کریں تاکہ پاکستان جیسے ممالک اپنے آپ کو خود مختار معیشتیں بنا سکیں۔ منصفانہ تجارتی پالیسیز، اہم شعبوں میں سرمایہ کاری، اور علاقائی استحکام کی حمایت سے خوشحالی آئے گی اور ان حالات کو روکا جائے گا جو تنازعات اور انتہاپسندی کو جنم دیتے ہیں۔ مجھے امید ہے کہ امریکہ کی قیادت کا یہ نیا دور ان اہم شعبوں میں حقیقی تعاون لائے گا اور امن و ترقی کے قیام میں مددگار ثابت ہوگا۔ جیسے جیسے ہم آگے بڑھ رہے ہیں، میں اپنے پاکستان کے وژن پر پُرعزم ہوں — ایک ایسا ملک جو انصاف، مواقع اور برابری پر مبنی ہو۔ آگے کا راستہ مشکل ہوگا، لیکن مجھے شک نہیں کہ پاکستانی عوام اپنی عزم و ہمت کے ساتھ ان چیلنجز کا مقابلہ کریں گے۔ ہم سب مل کر آنے والی نسلوں کے لیے ایک روشن مستقبل تعمیر کریں گے۔
پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) نے راولپنڈی میں نیوزی لینڈ اور بنگلہ دیش کے درمیان چیمپئنز ٹرافی کے میچ کے دوران ایک تماشائی کے گراؤنڈ میں داخل ہونے کے واقعے کا سختی سے نوٹس لے لیا ہے۔ اس واقعے کو سیکیورٹی کی سنگین خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے پی سی بی نے کہا کہ کھلاڑیوں اور آفیشلز کی حفاظت اولین ترجیح ہے اور سیکیورٹی اقدامات کو مزید سخت کیا جائے گا۔ یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب ایک تماشائی میدان میں داخل ہو کر نیوزی لینڈ کے کھلاڑی راچن رویندر کو گلے لگانے کی کوشش کرنے لگا۔ مذکورہ شخص نے تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کے سربراہ حافظ سعد حسین رضوی کی تصویر بھی اٹھا رکھی تھی۔ سیکیورٹی اہلکاروں نے فوری طور پر مداخلت کرتے ہوئے اسے میدان سے باہر نکالا اور گرفتار کرلیا۔ پی سی بی کے ترجمان کے مطابق، سیکیورٹی breach پر سنجیدگی سے غور کیا جا رہا ہے اور اس معاملے پر مقامی سیکیورٹی ایجنسیوں سے مشاورت کی جا رہی ہے۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ آئندہ اس طرح کے واقعات کی روک تھام کے لیے اسٹیڈیم کی سیکیورٹی کو مزید سخت کیا جائے گا۔ پی سی بی نے اعلان کیا ہے کہ مذکورہ شخص پر کسی بھی پاکستانی اسٹیڈیم میں داخلے پر پابندی لگا دی گئی ہے، جبکہ مستقبل میں ایسے واقعات کو روکنے کے لیے سیکیورٹی پروٹوکول کا ازسرنو جائزہ لیا جائے گا۔ راولپنڈی کرکٹ اسٹیڈیم میں سیکیورٹی کے معاملہ پر آئی سی سی نے بھی اظہار تشویش کیا تھا ، آئی سی سی نے کہا تھا کہ میچ کے دوران مذہبی جماعت کے کارکن کی جانب سے سخت سیکورٹی انتظامات کے باوجود پچ پر جاکر مذہبی لیڈر کی فوٹو لہرانے پر سخت تشویش ہے، تحقیقات کرنے کیساتھ سیکیورٹی مزید سخت بنائی جائے۔ میچ کے بعد، راچن رویندر نے ڈان نیوز سے گفتگو میں کہا کہ انہیں شائقین کی اس محبت سے کوئی خطرہ محسوس نہیں ہوا اور وہ پاکستان کے کرکٹ شائقین کے جوش و خروش سے خوش ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اچھے کراؤڈ کا اثر کھیل پر بھی پڑتا ہے اور یہ ماحول کو مزید دلچسپ بنا دیتا ہے۔ نیوزی لینڈ نے بنگلہ دیش کو پانچ وکٹوں سے شکست دے کر چیمپئنز ٹرافی کے سیمی فائنل میں جگہ بنا لی، جبکہ میزبان ٹیم پاکستان سیمی فائنل کی دوڑ سے باہر ہو گئی۔ نیوزی لینڈ کے راچن رویندر نے 112 رنز کی شاندار اننگز کھیلی اور اپنی ٹیم کو فتح دلانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ پاکستانی ٹیم اس سے قبل نیوزی لینڈ اور بھارت کے خلاف شکست کھا چکی تھی، جس کے بعد وہ 1996 کے ورلڈ کپ کے بعد پہلی بار کسی آئی سی سی ٹورنامنٹ میں سیمی فائنل میں پہنچنے میں ناکام رہی۔ تماشائی کے خلاف مقدمہ درج گراؤنڈ میں داخل ہونے والے شخص کے خلاف نیو ٹاؤن تھانے میں مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔ ایف آئی آر کے مطابق، ملزم عبدالقیوم، جو کہ باہتر، ضلع اٹک کا رہائشی ہے، نے جان بوجھ کر سیکیورٹی پروٹوکول کی خلاف ورزی کی اور یاسر عرفات انکلوژر سے میدان میں داخل ہوا۔ عدالت نے مقدمے کی سماعت کے دوران ملزم کو 50 ہزار روپے کے ضمانتی مچلکے جمع کرانے پر رہا کرنے کا حکم دے دیا، تاہم اگر وہ ضمانت کے مچلکے جمع نہ کرا سکا تو اسے جیل بھیج دیا جائے گا۔ عدالت نے مقدمے کی اگلی سماعت 11 مارچ تک ملتوی کرتے ہوئے پولیس کو چالان جمع کرانے کا حکم دیا ہے۔
چولستان کے 100 سے زائد رہائشیوں نے لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کرتے ہوئے الزام لگایا ہے کہ انہیں گرین پاکستان پروگرام کے تحت زبردستی زمین دینے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ مقامی افراد کا مؤقف ہے کہ وہ اس زمین پر کئی دہائیوں سے آباد ہیں اور اسے بنجر ریت کے ٹیلوں سے قابل کاشت بنایا ہے، مگر اب انہیں بے دخل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ڈان نیوز کی رپورٹ کے مطابق درخواست گزاروں کے وکیل محمد کامران کے مطابق، لاہور ہائی کورٹ بہاولپور بینچ کے جسٹس عاصم حفیظ نے درخواست کو سماعت کے لیے منظور کرتے ہوئے متعلقہ فریقین سے رپورٹ طلب کرلی ہے۔ عدالت نے پنجاب بورڈ آف ریونیو کے حکام کو بھی ہدایت کی ہے کہ وہ آئندہ سماعت پر پیش ہو کر وضاحت دیں۔ بستی کھیر سر، چک نمبر 176/ڈی بی کے تقریباً 124 رہائشیوں کا کہنا ہے کہ وہ حقیقی چولستانی ہیں، اور ان کے آبا و اجداد کئی دہائیوں سے اس زمین پر آباد رہے ہیں۔ ان کے مطابق، انہوں نے بے آب و گیاہ علاقے کو آباد کیا اور اپنی محنت سے ریتیلے ٹیلوں کو زرخیز زمین میں تبدیل کیا۔ تاہم، حالیہ عرصے میں انہیں یہ اطلاعات ملی ہیں کہ ان کی زمین کو گرین پاکستان پروگرام کے تحت زراعتی مقاصد کے لیے حکومتی تحویل میں لیا جا رہا ہے۔ درخواست گزاروں کا کہنا ہے کہ گزشتہ برس لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس شاہد جمیل خان نے ایک فیصلے میں انہیں زمین کی نیلامی میں اولین حق دینے کی ہدایت کی تھی، مگر اب حکومتی ادارے اس فیصلے کے برخلاف زبردستی زمین لینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ درخواست گزاروں نے الزام عائد کیا ہے کہ چولستان ڈیولپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) نے ان کی زمینوں کو نیلامی کے لیے مختص کیا تھا، اور وہ اسے خریدنے کے خواہشمند تھے، مگر بعد میں یہ زمین 30 ہزار ایکڑ کے اس منصوبے میں شامل کر دی گئی جسے حکومت گرین پاکستان پروگرام کے تحت استعمال کرنا چاہتی ہے۔ درخواست گزاروں کے مطابق، انہیں زبردستی بے دخل کرنے کی تیاریاں کی جا رہی ہیں اور حکومتی ادارے ان کے احتجاج کو نظر انداز کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ انتہائی غریب ہیں، ان کے پاس رہنے کے لیے اور کوئی جگہ نہیں، اور اس زمین کے بغیر ان کی زندگی اجیرن ہو جائے گی۔ عدالت نے اس معاملے پر فوری کارروائی کرتے ہوئے صوبائی لا افسر سے رپورٹ طلب کر لی ہے اور پنجاب بورڈ آف ریونیو کے حکام کو بھی عدالت میں پیش ہونے کی ہدایت دی ہے۔ درخواست گزاروں کو امید ہے کہ عدالت ان کے حق میں فیصلہ دے گی اور انہیں اپنی زمینوں سے بے دخلی سے بچایا جا سکے گا۔ زمین کا تنازع اور گرین پاکستان پروگرام گرین پاکستان پروگرام کے تحت حکومت اور فوج کے اشتراک سے چولستان میں زرعی ترقی کے منصوبے شروع کیے جا رہے ہیں، جن کا مقصد بنجر زمین کو سرسبز بنانا اور مقامی معیشت کو بہتر بنانا ہے۔ اس منصوبے کے تحت جدید زرعی تکنیکوں کا استعمال کیا جا رہا ہے تاکہ پانی کی قلت والے علاقوں میں بھی زراعت ممکن ہو سکے۔ تاہم، اس منصوبے کے حوالے سے تنازعات سامنے آ رہے ہیں۔ چولستان کے رہائشیوں کا کہنا ہے کہ انہیں ان کی زمینوں سے زبردستی بے دخل کیا جا رہا ہے اور شفاف طریقے سے زمین کے حصول کا عمل مکمل نہیں کیا جا رہا۔ ان کا دعویٰ ہے کہ وہ اپنی زمینوں پر کئی نسلوں سے آباد ہیں اور یہ ان کا بنیادی حق ہے۔ درخواست گزاروں کے مطابق، پنجاب بورڈ آف ریونیو نے چولستان میں 30 ہزار ایکڑ زمین محفوظ کر رکھی ہے، جس میں ان کا علاقہ بھی شامل ہے۔ انہوں نے مطالبہ کیا ہے کہ عدالت حکومت کو ان کی زمین کسی اور مقصد کے لیے منتقل کرنے سے روکے اور انہیں قانونی تحفظ فراہم کرے
خیبرپختونخوا کے ضلع خیبر میں سیکیورٹی فورسز کی کامیاب کارروائی کے دوران 10 دہشت گرد ہلاک کر دیے گئے۔ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق، یہ آپریشن اتوار اور پیر کی درمیانی شب باغ کے علاقے میں دہشت گردوں کی موجودگی کی خفیہ اطلاع پر کیا گیا۔ ترجمان کے مطابق، سیکیورٹی فورسز کے جوانوں نے دہشت گردوں کے ٹھکانے کو کامیابی سے نشانہ بنایا، جس کے نتیجے میں 10 خارجی دہشت گرد مارے گئے۔ فورسز نے علاقے میں مزید کلیئرنس آپریشن جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے تاکہ دہشت گردوں کا مکمل خاتمہ یقینی بنایا جا سکے۔ یہ کارروائی ملک میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی کے خلاف حالیہ اقدامات کا تسلسل ہے۔ ایک روز قبل، سیکیورٹی فورسز نے خیبرپختونخوا کے ضلع ڈیرہ اسماعیل خان میں دو مختلف کارروائیوں کے دوران 7 دہشت گردوں کو ہلاک کیا تھا، جب کہ گزشتہ ہفتے جنوبی وزیرستان میں انٹیلی جینس بیسڈ آپریشن کے نتیجے میں 30 دہشت گردوں کو مارا گیا تھا۔ خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں حالیہ مہینوں میں دہشت گردی کے واقعات میں نمایاں اضافہ دیکھا گیا ہے۔ کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی جانب سے 2022 میں حکومت کے ساتھ طے شدہ جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزی کے بعد حملوں کی شدت میں اضافہ ہوا ہے۔ اسلام آباد میں قائم تھنک ٹینک، پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس اسٹڈیز کی حالیہ سیکیورٹی رپورٹ کے مطابق، 2024 میں دہشت گرد حملوں کی تعداد 2014 کی سطح تک پہنچ چکی ہے۔ رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ اگرچہ دہشت گردوں کا مخصوص علاقوں پر قبضہ نہیں، لیکن خیبرپختونخوا اور بلوچستان کے کچھ حصوں میں امن و امان کی صورت حال تشویشناک ہے۔ رپورٹ کے مطابق، رواں سال ریکارڈ کیے گئے 95 فیصد سے زیادہ حملے انہی دو صوبوں میں ہوئے ہیں۔
کراچی: سندھ کی جیلوں میں قیدیوں کے کھانے، ادویات، کپڑوں اور فرنیچر کی فراہمی کے ٹھیکوں میں 2 ارب 45 کروڑ 61 لاکھ روپے کی بے ضابطگیوں کا انکشاف ہوا ہے، جس پر سندھ اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی (پی اے سی) نے تحقیقات کا حکم دے دیا ہے۔ ڈان نیوز کے مطابق، سندھ اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا اجلاس چیئرمین نثار کھوڑو کی سربراہی میں ہوا، جس میں جیلوں میں ہونے والی مالی بے قاعدگیوں پر بحث کی گئی۔ اجلاس کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ سندھ کی مختلف جیلوں، بشمول سینٹرل جیل کراچی، میں قیدیوں کے لیے فراہم کیے جانے والے کھانے، ادویات، کپڑوں اور فرنیچر کے ٹھیکوں میں بڑے پیمانے پر مالی بے ضابطگیاں ہوئی ہیں۔ اجلاس کے دوران آئی جی جیلز قاضی نظیر احمد نے کمیٹی کو بتایا کہ قیدیوں کے کھانے، دوائیں، کپڑے اور دیگر ضروری اشیا کی خریداری کے لیے باضابطہ ٹینڈر جاری کیے گئے، اور ان پر 2 ارب 45 کروڑ روپے خرچ کیے گئے۔ تاہم، جب جیل حکام سے اس خرچ کی تفصیلات طلب کی گئیں تو وہ آڈٹ ٹیم اور پی اے سی کو مطمئن نہ کر سکے۔ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے سندھ کے سیکریٹری داخلہ کو ہدایت کی کہ وہ قیدیوں کے کھانے اور دیگر اشیا کی خریداری میں ہونے والے مالی بے ضابطگیوں کی مکمل تحقیقات کر کے ایک ماہ کے اندر رپورٹ پیش کریں۔ اس کے علاوہ، پی اے سی نے سندھ بھر کی جیلوں میں انٹرنل آڈٹ کرانے کی بھی ہدایت دی ہے تاکہ دیگر ممکنہ مالی بے ضابطگیوں کا بھی پتہ لگایا جا سکے۔
اسلام آباد: عالمی تنظیم Access Now اور #KeepItOn اتحاد کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق، پاکستان نے 2024 میں دنیا بھر میں تیسری سب سے زیادہ انٹرنیٹ بندشیں نافذ کیں۔ رپورٹ کے مطابق، گزشتہ سال ملک بھر میں 21 مرتبہ انٹرنیٹ بند کیا گیا، جو کسی بھی سال کے دوران پاکستان میں سب سے زیادہ ریکارڈ شدہ بندشیں ہیں۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ ان بندشوں میں سے کئی اہم واقعات سیاسی حالات اور سیکیورٹی خدشات سے جڑے تھے۔ سب سے نمایاں مثال 8 فروری 2024 کو عام انتخابات کے دن پیش آئی، جب ملک بھر میں موبائل انٹرنیٹ سروسز کو بند کر دیا گیا۔ اس کے علاوہ، سوشل میڈیا پلیٹ فارمز جیسے کہ ایکس (X)، سگنل، اور بلیو اسکائی کو بھی قومی سطح پر بلاک کیا گیا، جس سے شہریوں کی معلومات تک رسائی شدید متاثر ہوئی۔ علاقائی سطح پر بھی کئی بار انٹرنیٹ بندشوں کا سہارا لیا گیا، خاص طور پر احتجاجوں کے دوران۔ عالمی تناظر میں دیکھا جائے تو میانمار اور بھارت نے بالترتیب سب سے زیادہ انٹرنیٹ شٹ ڈاؤن کے ساتھ پہلی اور دوسری پوزیشن حاصل کی، جبکہ پاکستان تیسرے نمبر پر رہا۔ ماہرین کے مطابق، ان بندشوں سے نہ صرف شہریوں کے بنیادی حقوق جیسے کہ آزادیِ رائے اور ڈیجیٹل رسائی پر منفی اثرات پڑے، بلکہ معیشت کو بھی اربوں روپے کا نقصان اٹھانا پڑا۔ #KeepItOn اتحاد نے پاکستانی حکام سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ انٹرنیٹ تک بلاتعطل رسائی کو یقینی بنائیں اور شہریوں کے ڈیجیٹل حقوق کا تحفظ کریں۔ رپورٹ کے مصنفین نے خبردار کیا کہ اگر یہ رجحان جاری رہا تو پاکستان کا ڈیجیٹل مستقبل خطرے میں پڑ سکتا ہے رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ ان بندشوں میں ملک گیر سطح پر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز X (سابقہ ٹوئٹر)، سگنل اور بلیو اسکائی کی معطلی، 8 فروری کو عام انتخابات کے دن موبائل سروسز کی مکمل بندش، اور مختلف احتجاجی مظاہروں و مذہبی تہواروں کے دوران مخصوص علاقوں میں انٹرنیٹ کی معطلی شامل تھی۔ فروری 2024 میں ہونے والے عام انتخابات سے قبل، Access Now اور #KeepItOn اتحاد نے عالمی تنظیموں کے ساتھ مل کر اس وقت کے نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ اور چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کو ایک کھلا خط لکھا تھا۔ اس خط میں مطالبہ کیا گیا تھا کہ ملک بھر، بالخصوص بلوچستان میں، شہریوں کو بلا تعطل انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز تک رسائی دی جائے، تاکہ انتخابات کا شفاف انعقاد ممکن ہوسکے۔ تاہم، اس مطالبے پر عمل نہیں ہوا، اور انتخابات کے دن انٹرنیٹ مکمل طور پر بند رہا۔ پاکستان میں عام انتخابات کے بعد شہباز شریف کی قیادت میں نئی حکومت قائم ہوچکی ہے، مگر انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا پر پابندیوں کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔ تنظیموں کا کہنا ہے کہ پاکستان میں انٹرنیٹ بندش کو اپوزیشن سرگرمیوں کو محدود کرنے کے لیے ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ 2018 کے انتخابات میں کم از کم 11 بار انٹرنیٹ بند کیا گیا تھا، جبکہ 2022، 2023 اور 2024 میں انٹرنیٹ شٹ ڈاؤن مزید بڑھ گئے۔
ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) نے غیرسرکاری تنظیم پتن کی اسلام آباد میں واقع عمارت کو سیل کرنے کی شدید مذمت کرتے ہوئے اسے ناقابل قبول قرار دیا ہے۔ تنظیم کے مطابق، اس اقدام کے پیچھے سیاسی وجوہات کارفرما ہیں اور یہ آزادی اظہار اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے۔ ڈان نیوز کے مطابق، پتن کی جانب سے جاری کردہ ایک پریس ریلیز میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ تنظیم کے نیشنل کوآرڈینیٹر سرور باری کی رہائش گاہ کو زبردستی سیل کر دیا گیا اور ان کے اہل خانہ کو بے دخل کر دیا گیا۔ بیان میں کہا گیا کہ اسلام آباد پولیس نے گزشتہ دو ہفتوں کے دوران دو مرتبہ ان کی رہائش گاہ کا دورہ کیا اور آخرکار 21 فروری کو مجسٹریٹس کی نگرانی میں پولیس اہلکاروں نے گھر کی تلاشی لی، پھر اسے بند کر دیا گیا۔ پریس ریلیز کے مطابق، اس کارروائی کے دوران سرور باری کی اہلیہ اور 90 سالہ بزرگ خاتون، جو ان کی خالہ ہیں، کو بھی گھر چھوڑنے پر مجبور کیا گیا۔ پتن نے دعویٰ کیا کہ اس اقدام کا مقصد گزشتہ سال فروری میں ہونے والے عام انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے خلاف تنظیم کی رپورٹ پر انتقامی کارروائی کرنا ہے۔ پتن کی رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ انتخابات میں ہیرا پھیری، جبر اور دھاندلی کے 64 نئے ذرائع استعمال کیے گئے تھے، جس کے بعد سے تنظیم کو ہراساں کیا جا رہا ہے۔ اسلام آباد انتظامیہ کی جانب سے جاری کردہ نوٹس میں کہا گیا کہ پتن کی رجسٹریشن 19 نومبر 2019 کو منسوخ کر دی گئی تھی، اور تنظیم غیرقانونی طور پر اپنے امور چلا رہی تھی، جس کی بنیاد پر اس کی عمارت کو سیل کرنا ضروری ہوگیا۔ تاہم، پتن کا مؤقف ہے کہ انہیں رجسٹریشن کی منسوخی کے حوالے سے کسی بھی قسم کا نوٹس موصول نہیں ہوا، اور وہ مسلسل سرکاری عہدیداروں کی موجودگی میں اپنے منصوبے چلا رہے تھے۔ تنظیم نے اس نوٹس کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے کہا کہ اسے محض دباؤ میں لانے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ ایچ آر سی پی نے سوشل میڈیا پر جاری اپنے بیان میں اسلام آباد پولیس اور انتظامیہ کے اس اقدام پر تنقید کرتے ہوئے اسے آئین کے آرٹیکل 14 (1) کی خلاف ورزی قرار دیا، جو شہریوں کی نجی زندگی اور ان کے گھروں کے تحفظ سے متعلق ہے۔ کمیشن نے اس کارروائی کو خوف و ہراس پھیلانے اور شہریوں کو دبانے کا حربہ قرار دیتے ہوئے مطالبہ کیا کہ اس معاملے پر فوری سماعت ہونی چاہیے۔ دوسری جانب، لندن میں موجود سرور باری نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ اسلام آباد میں ان کی رہائش گاہ کو جمعہ کی رات زبردستی سیل کیا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ اقدام انتخابات سے متعلق پتن کی رپورٹ کے ردعمل میں کیا گیا ہے، جس میں دھاندلی اور جبر کی نشاندہی کی گئی تھی۔ ان کی اہلیہ عالیہ بانو کے مطابق، اس کارروائی میں پولیس افسران، مجسٹریٹس اور اسلام آباد انتظامیہ کے تقریباً دو درجن افراد نے حصہ لیا، جو غیرمعمولی اقدام تھا۔
وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین خان گنڈاپور اور صوبائی وزیر برائے آبپاشی عاقب اللہ خان نے نوشہرہ کا دورہ کیا اور نو تعمیر شدہ جڑوبہ ڈیم کا باضابطہ افتتاح کیا۔ اس موقع پر صوبائی وزراء، میاں خلیق الرحمان، اور نوشہرہ سے منتخب قومی و صوبائی اسمبلی کے اراکین بھی ان کے ہمراہ تھے۔ جڑوبہ ڈیم 777 ملین روپے کی لاگت سے تعمیر کیا گیا ہے اور اس کی تعمیر سے علاقے میں زرعی سرگرمیوں کو فروغ ملے گا۔ حکام کی بریفنگ کے مطابق یہ ڈیم 930 ایکڑ بنجر اراضی کو قابلِ کاشت بنانے میں مدد دے گا۔ ڈیم کی اونچائی 115 فٹ اور چوڑائی 697 فٹ ہے، جو 4.65 کیوسک پانی فراہم کرے گا۔ اس منصوبے کے تحت 6.15 کلومیٹر طویل نہر بھی تعمیر کی گئی ہے جو اطراف کے دیہات کو آبپاشی کے لیے پانی فراہم کرے گی۔ یہ ڈیم نہ صرف زرعی ترقی کے لیے مفید ہوگا بلکہ مقامی آبادی کو 0.75 کیوسک پینے کا پانی بھی فراہم کرے گا، جو 22 ہزار افراد کے لیے کافی ہوگا۔ اس سے علاقے میں پانی کی قلت کے مسئلے کو بھی حل کرنے میں مدد ملے گی۔ افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور نے کہا کہ حکومت علاقے کی ترقی کے لیے ہر ممکن اقدامات کر رہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ بڑے افسوس کی بات ہے کہ اس دور میں بھی یہ علاقہ پسماندہ ہے، لیکن ہم اسے ترقی کی راہ پر گامزن کریں گے۔ وزیر اعلیٰ نے اس موقع پر جڑوبہ کے عوام کے لیے متعدد ترقیاتی منصوبوں کا اعلان کیا، جن میں جڑوبہ میں پینے کے پانی کے مسئلے کے حل کے لیے 2 کروڑ روپے مختص کرنا، باقی ماندہ 2 کلومیٹر سڑک کی تعمیر، اگلے سال کے بجٹ میں جڑوبہ میں آر ایچ سی (رورل ہیلتھ سنٹر) کی تعمیر شامل کرنا، اور 250 مستحق گھرانوں کو سولر سسٹم کی فراہمی کے لیے خصوصی پیکج شامل ہیں۔ وزیر اعلیٰ نے نوجوانوں پر زور دیا کہ وہ تعلیم حاصل کریں اور اقدار و اخلاقیات کو اپنائیں۔ ان کا کہنا تھا کہ یہی ترقی کا زینہ ہیں۔ موجودہ صوبائی حکومت نوجوانوں کو تمام شعبوں میں آگے بڑھنے کے مواقع فراہم کر رہی ہے۔

Back
Top